چڑھائی کی۔
سلطان ابو سعید کی وفات:
ادھر سے سلطان ابو سعید بھی فوج لے کر متوجہ ہوا۔ مقام شیروان میں پہنچ کر سلطان آب و ہوا کی ناموافقت کے سبب بیمار ہو گیا۔ اسی بیماری کے ارتداد و اشتداد سے ۱۳ ربیع الاخریٰ ۷۳۶ھ میں فوت ہوا، چونکہ سلطان ابو سعید لاولد فوت ہوا۔ لہٰذا اس کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ میں طائف الملوکی اور پریشانی رونما ہوئی۔
ارپاخان از اولاد ارتق بوقا ابن تولی خان :
سلطان ابو سعید کی وفات کے بعد بعض امراء کے اتفاق سے ارپا خان تخت نشین ہوا۔ اس نے تخت نشین ہو کر کہا کہ مجھ کو آرائش اور ناز و نعم کی مطلق ضرورت نہیں ۔ میں کمر زریں کی بجائے تسمہ اور تاج مرصع کی بجائے کلاہ نمد کو کافی سمجھتا ہوں ۔ چونکہ ازبک خان کی فوجوں سے مقابلہ در پیش تھا۔ لہٰذا ارپا خان نے مقابلہ کی تیاری میں ہمت صرف کی اور جابجا حملہ آوروں کی روک تھام کے واسطے فوجیں تعینات کیں ۔ اسی اثناء میں ازبک خان کے پاس خبر پہنچی کہ دشت قبچاق میں بغاوت و فتنہ پیدا ہونے والا ہے۔ وہ اس وحشت ناک خبر کو سنتے ہی اس طرف روانہ ہوا ادھر امیر علی نے اس کے خلاف خروج کیا۔ اس خروج میں امیر علی کو اس لیے اور بھی کامیابی ہوئی کہ ارپا خان نے اولاد ہلاکو خان کو جہاں کہیں پایا قتل کیا اور اس خاندان کے استیصال سے اکثر امراء کو بد دل بنا دیا۔
ارپا خان کا قتل:
آخر ۷۳۶ھ کے ماہ رمضان میں مقام مراغہ دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا۔ اس لڑائی میں ارپا خان گرفتار و مقتول ہوا۔ امیر علی نے فتح یاب ہو کر موسیٰ خان ابن بایدو خان ابن طرقائی ابن ہلاکو خان کو تخت پر بٹھایا۔
موسیٰ خان ابن بایدو خان :
موسیٰ خان کے تخت نشین ہونے پر امیر علی اویرات اور دوسرے امراء اویرات کے اقتدار نے خوب ترقی کی۔ امیر حسن جلائز جو ملک روم میں برسر حکومت تھا۔ اس نے موسیٰ خان پر چڑھائی کر کے میدان جنگ سے اس کو بھگا دیا اور امیر علی کو قتل کر دیا۔ موسیٰ خان شکست خوردہ بھاگ کر ضلع ہزارہ میں آیا اور یہاں گرفتار ہو کر قتل ہوا۔ موسیٰ خان کے بعد سلطان محمد خان ابن قتلق خان ابن تیمور ابن ابنارجی ابن منکور تیمور ابن ہلاکو خان تخت نشین ہوا۔ اس کی حکومت بھی موسیٰ خان کی طرح کمزور تھی۔ اس کے بعد برائے نام چند افراد اور ہلاکو خان کی نسل سے تخت نشین ہوئے اور ۷۴۴ھ تک ہلاکو خان کی اولاد کا نام و نشان گم ہو گیا اور
|