کو نامزد کر کے اس طرف روانہ کیا۔ ظالم نے دمشق پہنچ کر قرامطہ کے عامل کو گرفتار کر کے مصر بھیج دیا جہاں وہ جیل خانہ میں قید کر دیا گیا۔ ۳۶۴ھ تک دمشق پر دولت عبیدیہ کا پرچم لہرایا۔ اسی سال کے ایام حج میں مکہ و مدینہ کے لوگوں نے بھی مجبوراً معز کی حکومت تسلیم کی اور اس کے نام کا خطبہ وہاں پڑھا گیا۔ اہل دمشق عبیدیوں کی حکومت سے خوش نہ تھے۔ چنانچہ ۳۶۴ھ کے آخر اور ۳۶۵ھ کے شروع میں افتگین نے جو عزالدولہ بن بویہ کے خدام میں سے تھا۔ دمشق پر قبضہ کر کے معز کے عامل کو وہاں سے نکال دیا۔ اہل دمشق سب افتگین کی آمد سے بہت خوش ہوئے۔ معز کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے افتگین کو لکھا تم دمشق پر حکومت کرتے رہو اور میں تمہارے پاس سند امارت بھیجے دیتا ہوں ۔ میرے نام کا خطبہ پڑھو اور خلیفہ بغداد سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ افتگین نے معز کی اس سفارت کو ناکام واپس کر دیا اور دمشق میں خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ بدستور جاری رہا اور معز کی حکومت کے تمام علامات کو مٹا دیا گیا۔ معز یہ سن کر سخت طیش میں آیا اور خود فوج لے کر قاہرہ سے دمشق کی جانب روانہ ہوا۔
وفات:
ابھی مقام بلبیس ہی میں پہنچا تھا کہ ۱۵ ربیع الاول ۳۶۵ھ کو اس کے لیے پیغام مرگ آ پہنچا۔ اور ۴۵ سال ۶ مہینے کی عمر میں اپنی حکومت کے تیئسویں سال فوت ہوا۔ یہ عبیدیوں میں سب سے پہلا بادشاہ تھا جس نے مصر فتح کیا اور قاہرہ کو دارلسلطنت بنایا۔ یہ مقام مہدیہ میں ۱۱ رمضان ۳۱۹ھ کو پیدا ہوا تھا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا نزار تخت نشین ہوا۔ اور ’’عزیز باللہ‘‘ کا لقب اختیار کیا۔ اس نے کئی مہینے تک اپنے باپ کے انتقال کی خبر کو پوشیدہ رکھا اور بروز عیدالاضحی ۳۶۵ھ کو باپ کی وفات کا اعلان کر کے مراسم تخت نشینی ادا کیے۔
عزیز بن عبیدی!
افتگین کی فوج کشی:
معز کی وفات کا حال سن کر افتگین نے فوجیں تیار کر کے حدود مصر پر فوج کشی کی اور مقام صیدا کا محاصرہ کر لیا۔ صیدا میں ظالم بن موہوب اور دوسرے عبیدی سردار موجود تھے۔ انہوں نے مقابلہ کیا مگر شکست کھا کر بھاگے۔ افتگین نے بڑھ کر علہ کو فتح کر لیا۔ اس کے بعد طبریہ پر چڑھائی کی۔ اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد دمشق کی جانب واپس ہو گیا۔ عزیز بن معز بن معز نے اپنے وزیر یعقوب بن مکس کے مشورے کے موافق جوہر کاتب کو زبردست فوج دے کر افتگین کے مقابلہ اور دمشق کے لیے روانہ کیا۔ جوہر نے ماہ ذیقعدہ ۳۶۵ھ میں دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ اور طرفین سے لڑائیوں کا سلسلہ برابر جاری
|