Maktaba Wahhabi

394 - 868
مقابلے میں میدان چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے تھے، ڈیوک آف ایکیوٹین نے عقب سے آکر اسلامی لشکر پر حملہ کیا، اس غیر مترقبہ حملہ کا اثر یہ ہوا کہ اگلی صفیں پیچھے سے آنے والے دشمن کی طرف متوجہ ہو گئیں اور عیسائیوں کا لشکر عظیم جو فرار پر آمادہ تھا یک لخت اپنے آپ کو سنبھال کر حملہ آور ہوا مٹھی بھر مسلمانوں کی جمعیت کا شیرازہ مجتمع نہ رہ سکا۔ امیر عبدالرحمن کی شہادت اس داروگیر میں امیر عبدالرحمن غافقی نے اپنے پیشرؤوں کی سنت پر عمل کیا اور شمشیر بکف دشمنوں میں گھس کر سیکڑوں کو تہ تیغ کیا اور جسم پر سیکڑوں زخم کھا کر جام شہادت نوش کیا اس روز بھی صبح سے شام تک ہنگامہ کار زار گرم رہا تھا اور عبدالرحمن غافقی کی شہادت کے بعد ہی رات کی تاریکی نے لڑائی کو روک دیا تھا، بظاہر آج بھی عیسائی فتح مند نہ تھے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے مسلمانوں کو نرغہ میں لے لیا تھا، مگر شام تک شمشیر زنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود ہی سمٹ کر پھر ایک طرف ہو گئے تھے اور مسلمانوں کو ان کی جگہ سے نہ ہٹا سکے تھے، مگر خاتمۂ جنگ مسلمانوں کے لیے سخت اندوہناک اور عیسائیوں کے لیے بے حد مسرت انگیز تھا مسلمانوں نے اپنے سپہ سالار اور امیر کے شہید ہو جانے کے بعد اپنے آپ کو میدان جنگ میں قائم رکھنا مناسب نہ سمجھا اور وہ رات ہی کو وہاں سے کوچ کر گئے، صبح کو جب عیسائیوں نے مسلمانوں سے میدان کو خالی دیکھا تو انہوں نے بھی وہاں قیام مناسب نہ سمجھا مسلمانوں کا تعاقب کرنا تو بڑی بات تھی چارلس مارٹل نے اپنے دارالحکومت کی طرف واپس جانے میں اس لیے زیادہ عجلت سے کام لیا کہ کہیں مسلمان کمین گاہ میں نہ چھپے بیٹھے ہوں اور ایسا نہ ہو کہ ہم پر حملہ آور ہو کر قیامت برپا کر دیں ، اس لڑائی میں عیسائیوں کے لاتعداد آدمی مارے گئے اور مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کا سپہ سالار کام آیا، بہرحال اس لڑائی کے بعد اس مہم کا خاتمہ ہوگیا اور مسلمان زیادہ ملک فتح نہ کر سکے، اب چاہو تو اس کو مسلمانوں کی شکست سمجھ لو چاہو برابر کی زور آزمائی قرار دے لو اور چاہو تو عیسائیوں کی شکست تصور کر لو، یہ لڑائی ۱۱۴ھ میں واقع ہوئی۔ عبدالملک بن قطن فہری: اس لڑائی کے انجام اور عبدالرحمن کی شہادت کا حال جب گورنر افریقہ عبید بن عبدالرحمن کو معلوم ہوا تو اس نے عبدالملک بن قطن فہری کو اندلس کا امیر مقرر کیا اور حکم دیا کہ فرانسیسیوں سے عبدالرحمن غافقی کا انتقام ضرور لینا چاہیے، عبدالملک بن قطن فہری نے اندلس میں داخل ہو کر ۱۱۵ھ میں زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور ملک کے اندرونی انتظامات سے فارغ ہو کر فرانس کے ملک پر حملہ کی تیاری کی۔
Flag Counter