نااتفاقیوں کے عہد خلافت عباسیہ میں علوم و فنون میں ترقی کرنے اور مہذب و شائستہ ہونے کا لوگوں کو خوب موقع ملتا رہا۔
خلافت عباسیہ کے ابتدائی ایام میں مختلف علوم و فنون کی بنیاد قائم ہو چکی تھی، قیمتی تصانیف تصانیف شروع ہو گئی تھیں ، اس کے بعد حکومت عباسیہ کمزور ہوتی گئی، مگر ان علمی ترقیات اور علوم و فنون کی نشوونما اور ایجادات کی رفتار میں کوئی کمی اور سستی واقع نہیں ہوئی، اس کا بڑا سبب یہی تھا کہ نظام حکومت جو اسلامی اصولوں پر قائم ہوا تھا وہ سلطنت کے ضغیف اور جنگ و جدل کے قوی ہوجانے کی حالت میں بھی بالکل روگرواں اور سراسر درہم برہم نہیں ہوا بلکہ بد امنی کے زمانے میں بھی اس کی روح موجود رہتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ علمی و معاشرتی و اخلاقی ترقیات کو کبھی زبردست دھکا نہیں لگا۔
سامانیوں ، صفاریوں ، سلجوقیوں کی حکومتیں زیادہ مستقل اور پائیدار نہ تھیں ، مگر ان کے عہد حکومت اور حدود سلطنت میں بھی بڑے بڑے زبردست عالم پیدا ہوئے اور علوم و فنون کے مشہور اماموں نے اپنے زندہ جاوید کار نامے چھوڑے۔
دیوان العزیز:
دربار خلافت کا نام دیوان العزیز تھا، جو وزیر کار سلطنت کے تمام صیغوں پر اختیار کلی رکھتے تھے اور انہی کے ہاتھ میں زمام سلطنت سمجھی جاتی تھی ان کے دفتر اور ان کے محکمہ پر بھی دیوان العزیز کا لفظ بولا جاتا تھا، تمام دفاتر اور تمام محکمے اور صیغے اسی کے ماتحت ہوتے تھے، وزیراعظم کو متعلقہ صیغوں کے افسروں سے مشورہ کرنے کے بعد احکام جاری کرنے پڑتے تھے۔
دیوان الخراج:
اس کو محکمہ مال سمجھنا چاہیے، یہ محکمہ کبھی براہ رات وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور کبھی اس کا مہتمم ایک جدا وزیر ہوتا تھا جو وزیر اعظم کا ماتحت سمجھا جاتا تھا، کبھی کبھی خلیفہ وزیر مال کا تعلق وزیراعظم سے نہیں رکھتا تھا، بلکہ براہ راست خود اپنے کاتب کے ذریعے اس کی نگرانی کرتا تھا، کبھی وزیر مال اپنے نائب صوبوں میں خود مقرر کرتا تھا اور وہ اس صوبہ کے گورنر کی ماتحتی سے آزاد ہوتے، عام طور پر وزیر مال صوبوں کے گورنروں کو انتظام مالی میں مختار قرار دے کر انہی کو جواب دہ اور ذمہ دار سمجھتا تھا۔
دیوان الجزیہ یا دیوان الذمام:
اس محکمے میں جزیہ اور ذمیوں کے متعلق کاغذات رہتے تھے، جزیہ کی وصولی، اس کا تقرر، جزیہ کی معافی وغیرہ سب اسی محکمے سے متعلق تھی، اسی محکمے کا مہتمم وزیر مال کا ماتحت سمجھا جاتا تھا، مگر قاضی القضاۃ
|