برشلونہ پر عیسائیوں نے اس شرط کے ساتھ قبضہ پا لیا کہ وہ مسلمانوں کو وہاں سے اپنے اسباب منقولہ کے ساتھ نکل جانے دیں گے۔ مسلمانوں نے برشلونہ کو خالی کر دیا، عیسائی فوجیں اس میں داخل ہو گئیں اور شاہ ایکیوٹین نے قلعہ برشلونہ کو خوب مضبوط کر کے وہاں ایک گورنر مقرر کر دیا۔ یہ نو مفتوحہ تمام علاقہ گاتھک مارچ کی ریاست میں شامل ہوگیا۔ اسلامی فوجوں کے لیے شمالی اندلس میں اب دو محاذ جنگ قائم ہو گئے۔ ایک ریاست ایسٹریاس اور صوبہ جلیقیہ کی سرکش عیسائی آبادی کا جن کو فرانس کی جانب سے برابر امداد پہنچتی رہتی تھی۔ دوسرا گاتھک مارچ اور برشلونہ کے علاقے کے باغی عیسائی رعایا کا جن کو بھی فرانس کی جانب سے امداد پہنچ رہی تھی۔ ادھر جنوب میں شازشوں کا جال پھیلا ہوا تھا اور مسلمان مولویوں نے نہایت سخت مشکلات پیدا کر دی تھیں ۔ فوجیں جو عیسائیوں کی مدافعت کے لیے روانہ کی گئیں وہ کسی ایک ہی محاذ پر عیسائیوں کے مقابلہ میں مصروف رہ سکتی تھیں ۔ چنانچہ صوبہ جلیقیہ کی طرف جا کر انہوں نے عیسائیوں کو ہزیمت دی تو دوسرا محاذ خالی رہا اور برشلونہ قبضہ سے نکل گیا۔ اسی طرح اگر وہ برشلونہ کی طرف متوجہ ہوتیں تو سرقسطہ و جلیقیہ وغیرہ پر عیسائیوں کا قبضہ قائم رہتا اور وہ مزید پیش قدمی کرتے۔
۱۸۹ھ میں اندلس کے مسلمان باغی عاملوں نے عیسائیوں کو ترغیب دے کر طلیطلہ پر حملہ کرایا۔ عیسائیوں نے برشلونہ اور شمالی شہروں سے طلیطلہ کی طرف حرکت کی ادھر یوسف بن عمر نے مدافعت پر مستعدی ظاہر کی آخر عیسائیوں نے طلیطلہ کا محاصرہ کر لیا اور شہر طلیطلہ کا محاصرہ کر لیا اور شہر طلیطلہ اور اس کے نواح کی عیسائی آبادی نے حملہ آوروں کے لیے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچا کر یوسف بن عمر طلیطلہ کو عیسائیوں کے ہاتھ میں گرفتار اور عیسائیوں کا طلیطلہ پر قبضہ کرا دیا۔ عیسائیوں نے یوسف بن عمر کو صخرئہ قیس میں قید کر دیا اور ملک اندلس کے قدیمی دارالسلطنت پر قابض ہو کر بے حد مسرور ہوئے۔ طلیطلہ کی خبر یوسف بن عمر کے باپ عمر بن یوسف کو پہنچی تو وہ سرقسطہ کی جانب سے ایک جرار فوج لے کر طلیطلہ کی جانب چلا۔ یہاں آکر معرکہ عظیم کے بعد طلیطلہ کو فتح کیا یوسف بن عمر کو آزاد کرایا اور عیسائیوں کو وہاں سے مار بھگایا۔ طلیطلہ پر عیسائیوں کا قبضہ کرانے میں باشندگان طلیطلہ نے جن میں زیادہ تر عیسائی ہی تھے زیادہ مؤثر کوشش کی تھی۔ لہٰذا سب سے زیادہ عتاب و عذاب کے مستحق عیسائیان طلیطلہ ہی تھے۔ جنہوں نے طلیطلہ کی حکومت کو بے حد مخدوش بنا رکھا تھا، مگر عمر بن یوسف نے نہایت دور اندیشی اور ہوشیاری سے کام لے کر ان غداروں کو کچھ نہیں کہا اور جو جو عذرات باردہ پیش کیے سب کو منظور کر کے ان کو مطمئن بنایا۔
حکم کی مخالفت کے اسباب:
سلطان حکم اگرچہ بہادر شخص تھا مگر جب سے اس کی حکومت شروع ہوئی تھی لڑائیوں کا سلسلہ برابر
|