ہشام کو بنایا تھا، سلیمان وہی بیٹھا تھا، جس کو فرات کے کنارے سے بغل میں لے کر بھاگا تھا مگر بعض مورخین نے لکھا ہے کہ وہ اندلس میں آنے سے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔
بہر حال مرتے وقت جو بیٹے موجود تھے ان میں سلیمان سب سے بڑا تھا، ہشام اپنے بھائی سلیمان سے زیادہ لائق اور تاج و تخت سلطنت کے سنبھالنے کی زیادہ قابلیت رکھتا تھا، اسی لیے عبدالرحمن نے اس کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔
نظم و نسق:
ایک نگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ امیر عبدالرحمن کی طبیعت میں مروت و فیاضی کا جوہر تھا، لیکن غداروں اور باغیوں نے اس کو سختی و سزا دہی پر مجبور کیا، اس کا طبعی میلان علم و ادب کی طرف تھا، مگر ضرورت نے اس کو نہایت محتاط اور تجربہ کار سپہ سالار بنا دیا تھا، عبدالرحمن کی ابتدائی عمر دمشق کے انتہائی تکلفات میں گذری تھی، مگر مصیبت آئی اور افلاس و غریبی سے پالا پڑا تو اس نے نہایت خوشی اور بلند ہمتی سے سب کچھ برداشت کیا، ابھی پوری طرح اس کی سلطنت قائم بھی نہ ہوئی تھی کہ اس نے مشرق کے دور دراز علاقوں سے بنو امیہ اور ان کے متولین کو اپنے خرچ سے اندلس بلوایا اور ان میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبہ کے موافق عہدے اور عزتیں عطا کیں ، عبدالرحمن کی ذکاوت و مآل اندیشی کے دشمن بھی مداح تھے، عبدالرحمن تمام مصائب و آلام کو خاموشی سے برداشت کر لیتا تھا۔
عبدالرحمن نے اپنے ملک مقبوضہ کو چھ صوبوں میں تقسیم کیا تھا، ہر ایک صوبہ میں ایک فوجی سپہ سالار رہتا تھا، اس سپہ سالار کے ماتحت دو عامل اور چھ وزیر ہوتے تھے، ان حکام کے مدد گار قاضی اور دیگر حکام ہوتے تھے، صدر دفتر قرطبہ کو یہ لوگ تمام ضروری اطلاعات بھیجتے رہتے تھے، عبدالرحمن ہمیشہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کی تدبیریں سوچتا رہتا تھا اس نے ایسے قوانین جاری کیے تھے کہ رعایا خوش حال ہو اور اپنے املاک پر آزادی کے ساتھ بلا مداخلت غیرے قابض و متصرف رہے۔
عبدالرحمن کو تعلیم و تعلم اور علم و ادب کی اشاعت کا خاص طور پر شوق تھا تمام ملک اندلس میں عبدالرحمن نے سڑکیں بنوائیں ، ڈاک کا انتظام کیا، ہر پڑاؤ پر گھوڑے رکھے تاکہ جلد از جلد ملک کے ہر حصے سے دارالخلافہ قرطبہ میں اطلاعات پہنچ سکیں ۔
عبدالرحمن نے لٹیروں اور ڈاکوؤں کا طاقت و سطوت کے ساتھ بالکل انسداد کر دیا تھا، بربری لوگ جو اپنی عادت سے کبھی بازنہ آئے تھے، پہلی مرتبہ امیر عبدالرحمن ہی کے زمانہ میں وہ خاموش ہو کر بیٹھے، عبدالرحمن اپنی ممالک محروسہ کا ہمیشہ دورہ کرتا رہتا تھا تاکہ اپنے عاملوں کا اندازہ کرے کہ وہ اس کی رعایا
|