پر کس طرح حکومت کرتے ہیں ، جہاں جہاں امیر کا گزر ہوتا وہاں کے محتاجوں اور عسیرالحال لوگوں کی دستگیری کرتا اور لوگوں کی اصلاح اور فائدے کے کام جاری کرتا، امیر عبدالرحمن کی فیاضیاں عام تھیں اور سب ان سے مستفیض ہوتے تھے۔
اگرچہ عبدالرحمن نے ہر جگہ مسجدیں اور رفاہ عام کی عمارتیں بنوائیں ، لیکن دار الحکومت قرطبہ کی شان و شوکت بڑھانے کے لیے اس نے خوبصورت عمارتیں بنانے میں زیادہ ہمت و توجہ صرف کی، محل شاہی کے صحن میں عبدالرحمن نے خرما کا ایک درخت نصب کرایا جو کہ اندلس میں خرما کا پہلا درخت تھا، قرطبہ کے قریب ایک باغ رصافہ کے نام سے لگایا جو اپنے دادا ہشام کے باغ رصافہ کے نمونہ پر تھا، قرطبہ میں ایک ٹکسال قائم کی جس میں دینار و درہم اسی نمونہ کے مسکوک کرائے، جیسے کہ شام میں رائج اور دمشق میں مسکوک ہوتے تھے، دنیا کے ہر حصے سے علماء و فضلاء کو بلوایا اور ان کی خوب قدر دانی کی، علمی تحقیقات اور فلسفیانہ موشگافیوں کے لیے مجلسیں مقرر کیں ، اپنے بیٹوں کو بہترین طریقہ پر تعلیم دلائی، اور ان کو حکم دیا کہ وہ دفتر شاہی اور قاضیوں کی کچہریوں میں حاضر ہو کر معاملات کو دیکھا کریں ، اہم مقدمات اور سرکاری معاملات کے فیصلے بھی ان شہزادوں کے سپرد کیے جاتے تھے۔
عام لوگوں میں علم کا شوق پیدا کرنے کے لیے مشاعرے اور مناظرے کی مجلسیں مقرر ہوتی تھیں ، اچھی نظموں اور علمی مناظروں کی کامیابی پر انعامات دیئے جاتے تھے امیر عبدالرحمن خود بھی ان تمام علمی مجلسوں میں شریک ہوتا تھا۔
اندلس کی عیش پسند آب و ہوا اور مال و دولت کی فراوانی نے امیر عبدالرحمن کے سپاہیانہ اخلاق میں کوئی تغیر پیدا نہیں کیا تھا اس کے اتقاء اور پرہیز گاری میں کسی وقت تغیر اور کمی محسوس نہیں ہوئی، قرطبہ کی مشہور آفاق مسجد کے لیے جو مقام سب سے زیادہ موزوں اور مناسب تھا وہ عیسائیوں کے قبضے میں تھا، امیر عبدالرحمن نے اس پر زبردستی قبضہ مناسب نہیں سمجھا جب خود ہی عیسائیوں نے اس کو فروخت کرنا چاہا تو امیر نے اس کو قیمت دے کر خریدا اور شہر کے متعدر مقامات میں ان کو گرجا تعمیر کرنے کی اجازت دی۔
امیر عبدالرحمن میں تمام وہ صفات موجود تھیں جو ایک عقلمند سیاست دان اور روشن دماغ بادشاہ میں ہونی چاہئیں ، جس تاریخ سے امیر عبدالرحمن نے تخت اندلس پر قدم رکھا، اسی تاریخ سے ملک اندلس خلافت مشرقیہ اسلامیہ کی ماتحتی سے آزاد ہو گیا لیکن امیر عبدالرحمن نے نہایت دانائی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے آپ کو امیر ہی کہلایا اور خلافت کا دعویٰ نہیں کیا، دس برس کے بعد خطبہ میں اپنا نام داخل کیا، عبدالرحمن اس بات کو جانتا تھا کہ ملک اندلس میں بہت سے ایسے مسلمان موجود ہیں جو بنی امیہ کو نفرت کی
|