میں سے کسی ایک کو تخت سلطنت کے لیے منتخب کیا جائے۔ چنانچہ ابو محمد عبداللہ بن یوسف بن حافظ عبیدی کو تخت سلطنت پر بٹھا کر اس کا لقب ’’عاضد لدین اللہ‘‘ تجویز کیا۔ عاضد اس وقت سن بلوغ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ عاضد کو تخت سلطنت پر بٹھا کر وزیر السلطنت صالح نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا۔
عاضد بن یوسف عبیدی:
عاضد چونکہ صالح کے ہاتھ میں تھا۔ عاضد برائے نام بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ حقیقتاً بادشاہی وزیر السلطنت صالح کے ہاتھ میں تھی۔ یہ بات امرائے سلطنت کو گراں گزرتی تھی۔ عاضد کی چھوٹی پھوپھی نے جو اپنی مقتول بہن کا انتقام صالح سے لینا چاہتی تھی صالح کے قتل کا بیڑا اٹھایا۔ اس نے امرائے سوڈانیہ کو صالح کے قتل پر آمادہ کیا۔ چنانچہ ایک سردار نے موقع پا کر صالح پر نیزے کا وار کیا وہ زخمی ہو کر گر پڑا اور اپنے مکان پر آکر تھوڑی دیر کے بعد مر گیا۔ مرنے سے پہلے عاضد عبیدی کو وصیت کر گیا کہ میرے بیٹے زریک کو وزیر السلطنت بنانا۔ چنانچہ عاضد نے صالح کے بیٹے کو قلمدان وزارت سپرد کر کے ’’عادل‘‘ کا خطاب دیا۔ عادل نے وزیر ہو کر عاضد کی اجازت سے اپنے باپ کے قصاص میں عاضد کی پھوپھی اور سوڈانی سردار کو قتل کیا۔ اس کے بعد عادل امور سلطنت کی انجام دہی میں مصروف ہوا۔ اس نے صعید کے والی شادر سعدی کو معزول کر کے اس کی جگہ امیر بن رقعہ کو صعید کا والی مقرر کیا۔ شادر یہ خبر سن کر مقابلہ پر مستعد ہو گیا اور فوراً فوجیں لے کر قاہرہ کی طرف چل دیا۔ عادل اس کے مقابلے کی تاب نہ لا سکا اور قاہرہ سے نکل بھاگا۔ شادر ۵۵۸ھ میں مظفر و منصور قاہرہ کے اندر داخل ہوا۔ زریک عادل گرفتار ہو کر آیا اور ایک سالہ وزارت کے بعد مقتول ہوا۔ شادر آتے ہی دار الوزارت پر قابض و متصرف ہوا۔ عاضد نے اس کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ عطا کر دیا۔ نو مہینے کے بعد ضرغام نامی ایک شخص نے جو محل سرائے کا داروغہ تھا۔ قوت پا کر شاور کو قاہرہ سے نکال دیا اور خود دارالوزارت پر قابض ہو گیا۔ شادر مصر سے نکل کر شام کی طرف روانہ ہوا۔ ضرغام نے شادر کے بیٹے علی کو جو قاہرہ میں تھا گرفتار کر کے قتل کر دیا اور بہت سے امیروں کو جن سے اس کو مخالفت کا اندیشہ تھا قتل کیا۔
سلطان نور الدین محمد زنگی کی مصر کی طرف توجہ!
شادر نے شام میں پہنچ کر الملک العادل نورالدین محمود زنگی کے دربار میں حاضر ہو کر مصر کے تمام حالات بیان کیے اور امداد کی درخواست کر کے یہ وعدہ کیا کہ اگر مجھ کو مصر کی وزارت پر پھر بحال کرا دیا گیا تو میں امرائے لشکر کی امدادی جاگیروں کے علاوہ مصر کے ایک حصے پر دولت نوریہ کا قبضہ کرا دوں گا۔ سلطان نورالدین نے بہت غور و تامل کے بعد اپنے سپہ سالار اسدالدین کو شیر کوہ کو ماہ جمادی
|