Maktaba Wahhabi

885 - 868
اور ہمت و شجاعت کا دھنی تھا جو کوئی اس کو فسخ عزم پر مجبور کرنا چاہتا تھا وہ اپنی جان گنوا دیتا تھا، اس ذی حوصلہ اور باہمت سلطان نے اپنے مسلمان بھائیوں کو نیچا دکھانے اور ان کے خطرے کو مٹانے کے بعد اب یہ جنگی تیاریاں یقینا عیسائیوں کے خلاف شروع کی تھیں اور اس کے نزدیک یہ تیاریاں ابھی بہت ناقص و ناتمام تھیں کیونکہ وہ یورپ پر ایک ایسا حملہ کرنا چاہتا تھا، جس میں شکست و ناکامی کو مطلق دخل نہ مل سکے۔ سلطان سلیم اپنی جنگی تیاریوں میں بڑی مستعدی کے ساتھ مصروف تھا کہ ۶ شوال ۹۲۶ھ مطابق ۲۲ ستمبر ۱۵۲۰ء شب جمعہ کو اس نے وفات پائی اور عیسائی ملکوں کی فتح کا کام اپنے بیٹے سلطان سلیمان اعظم کے لیے چھوڑ گیا۔ سلطان سلیم نے یکم شوال ۹۲۶ھ کو قسطنطنیہ سے ایڈریا نوپل کی طرف کوچ کیا ابھی وہ ایڈریا نوپل تک نہیں پہنچا تھا بلکہ راستے میں اس مقام پر خیمہ زن تھا جہاں وہ ایک مرتبہ اپنے باپ سے لڑا تھا کہ مرض کے اشتداد سے آگے نہ بڑھ سکا اور وہیں فوت ہو گیا، سلطان سلیم کی ران میں ایک پھوڑا نکلا تھا، طبیبوں نے گھوڑے کی سواری سے منع کیا لیکن سلطان نے گھوڑے کی سواری ترک نہ کی اور پھوڑا دم بدم خطر ناک شکل اختیار کرتا گیا حتیٰ کہ سلطان کی موت کا باعث ہوا۔ سلطان سلیم کے عہد حکومت پر تبصرہ : سلطان سلیم نے صرف آٹھ سال آٹھ مہینے آٹھ دن حکومت کی، اس قلیل مدت میں اس نے جس قدر فتوحات حاصل کیں کسی بڑے سے بڑے سلطان کو بھی حاصل نہیں ہو سکیں ، سلطان کی خصوصیات میں سب سے قابل تذکرہ بات یہ ہے کہ وہ انتہائی طیش و غضب کے عالم میں بھی علمائے دین کی تکریم کو مدنظر رکھتا تھا، وزیروں اور سپہ سالاروں کو معمولی لغزشوں پر قتل کر دینا اس کے لیے معمولی بات تھی اور اسی لیے اراکین سلطنت اس سے خائف و ترساں رہتے تھے، لیکن دینی پیشوا اور علماء اس کے طیش و غضب سے بے خوف اور آزاد تھے، سلیم کا خیال تھا کہ ملک کے اندر سخت گیری اور سیاست کے ذریعہ ہی امن و امان قائم رہ سکتا ہے اور ایک حد تک اس کا یہ خیال درست بھی تھا لیکن چوں کہ وہ اعلیٰ درجہ کا مذہبی شخص تھا اس لیے علمائے دین کی تحقیر و تذلیل وہ کسی حالت میں بھی گوارا نہیں کر سکتا تھا۔ ایک مرتبہ سلطان سلیم نے محکمہ مال کے ڈیڑھ سو اہل کاروں کو کسی بات پر ناراض ہو کر گرفتار کرایا اور حکم دیا کہ سب کے سر قلم کر دیئے جائیں ، قسطنطنیہ کے قاضی جمالی نے جب یہ حکم سنا تو فوراً سلطان سے کہا کہ آپ نے یہ حکم غلطی سے دیا ہے آپ اس حکم کو واپس لے لیں اور ان لوگوں کے سر قلم نہ کرائیں کیونکہ وہ مستحق قتل نہیں ہیں ۔ سلطان نے کہا کہ انتظام ملکی میں آپ کو دخل نہیں دینا چاہیے، قاضی صاحب نے کہا کہ آپ اس دنیا کے ملک کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہیں اور میں آپ کی عالم آخرت میں بھلائی چاہتا ہوں
Flag Counter