اس نے اول اول اپنے آپ کو اسی طرح ایک امیر اندلس کی حیثیت میں رکھا جیسا کہ اس سے پہلے بھی اندلس کے امیر ہوتے رہے تھے، خطبہ میں وہ خلیفہ عباسی ہی کا نام لیتا تھا، حالانکہ دل سے وہ عباسیوں کا دشمن تھا اور ان کو اپنا دشمن جانتا تھا ان ہم قوم اور ہم قبیلہ بلکہ قریبی رشتہ داروں کو اس نے اپنے لیے بہت ہی غنیمت سمجھا اور ان کو بڑے بڑے عہدے جو وہ بلاتامل دے سکتا تھا دیے، اندلس کے اندر عبدالرحمن کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہی بہت سے ایسے لوگ پیدا ہو چکے تھے جو دلی طور پر عبدالرحمن کی حکومت سے خوش نہ تھے، اب جب کہ عبدالرحمن نے ۱۴۱ھ میں عبدالملک اور اس کے بیٹے عمر کو اشبیلیہ وغیرہ کی حکومت عطا کی تو ان لوگوں کو آزادانہ اور پہلے سے زیادہ چہ می گوئیوں کا موقع مل گیا اور غدر و بغاوت کی تحریک جلد جلد نشوونما پا کر خطرناک صورت اختیار کر گئی۔
یوسف بن عبدالرحمن سابق امیر اندلس کا قتل:
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یوسف بن عبدالرحمن سابق امیر اندلس کو لوگوں نے ابھارا، وہ قرطبہ سے چھپ کر بھاگ نکلا مگر اس کے دونوں بیٹے ابوزید عبدالرحمن اور ابو الاسود قرطبہ سے نہ نکل سکے، وہ قرطبہ ہی میں رہ گئے، ضمیل بن حاتم یوسف بن عبدالرحمن فہری کا وزیر بھی قرطبہ سے نہ نکل سکا، یہ تینوں نظر بند اور قید کر لیے گئے، یوسف فہری قرطبہ سے بھاگ کر طلیطلہ پہنچا، قرارداد کے موافق ہر طرف سے لوگ آ آکر اس کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے اور بہت جلد بیس ہزار آدمیوں کا لشکر اس کے جھنڈے کے نیچے طلیطلہ میں مرتب ہو گیا۔ یوسف بن عبدالرحمن اس لشکر کو لے کر اشبیلیہ پر حملہ آور ہوا اور عبدالملک بن عمر کا محاصرہ کر لیا، عبدالملک مدافعت پر آمادہ ہو گیا، یوسف نے اشبیلیہ کی فتح میں زیادہ وقت صرف کرنا مناسب نہ سمجھ کر محاصرہ اٹھا لیا اور قرطبہ کی جانب روانہ ہوا ادھر عبدالملک کا بیٹا عمر اپنے باپ کے محصور ہونے کی خبر سن کر اشبیلیہ کی جانب روانہ ہو گیا تھا دونوں باپ بیٹوں نے مل کر یوسف بن عبدالرحمن کی فوج کا تعاقب کیا، ادھر امیر عبدالرحمن کو جب یہ معلوم ہوا کہ یوسف بیس ہزار فوج لیے ہوئے قرطبہ کی جانب آ رہا ہے تو وہ قرطبہ سے نکل کر خود یوسف کی طرف بڑھا، راستے میں مقابلہ ہوا، سامنے سے عبدالرحمن نے حملہ کیا پیچھے سے عبدالملک اور عمر آگئے، یوسف کی فوج کے بہت سے آدمی مارے گئے اور یوسف شکست کھا کر بے سر و سامانی کے ساتھ طلیطلہ کی جانب بھاگا، طلیطلہ کے قریب پہنچا تھا کہ اس کی فوج کے یمنی لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر یوسف کو ہم قتل کر دیں اور اس کا سر امیر عبدالرحمن کے پاس لے جائیں تو وہ اس خدمت کا صلے میں ہم سے خوش ہو جائے گا اور ہماری اس خطا کو کہ ہم نے بغاوت میں شرکت کی ہے معاف کر دے گا، چنانچہ یمنیوں نے یوسف کو طلیطلہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا
|