نے اس سند کے ذریعہ اس نئے علاقہ پر قبضہ کیا اور مستعین کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مستعین اور اس کے ہمراہی بربری برابر مصروف محاصرہ رہے مگر چونکہ محاصرہ کمزور ہو گیا تھا۔ لہٰذا اب مقابلہ اور معرکہ کی یہ صورت ہو گئی کہ کبھی شہر والے بربریوں کو مارتے ہوئے دور تک پیچھے ہٹا دیتے۔ اور کبھی بربری شہر والوں کو شکست دے کر شہر کے اندر گھس جاتے۔ یہ حالت بہت دنوں تک جاری رہی۔ اس عرصہ میں کئی عیسائی حکمرانوں نے اپنی بغاوت اور مستعین کی مدد کرنے کا دباؤ ڈال کر دربار قرطبہ سے ابن اوفونش کی طرح سری صوبوں کی سندیں حاصل کیں اور بہت سا ملک عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
ہشام کا انجام:
آخر ۳ شوال ۴۰۳ھ میں مستعین نے بزور تیغ قرطبہ پر قبضہ حاصل کیا۔ ہشام ثانی اس ہنگامے میں یا تو قتل ہو گیا یا کہیں اس طرح غائب ہوا کہ پھر اس کا پتہ نہ چلا، واضح عامری اس سے چند روز پہلے قتل ہو چکا تھا، مستعین نے قرطبہ میں داخل ہو کر تخت خلافت پر جلوس کیا۔
مستعین باللہ:
مستعین کا ذکر اوپر سے چلا آتا ہے اب یہ مستقل طور پر قرطبہ کا خلیفہ بن گیا۔ مگر جابجا صوبوں کے حاکم خود مختار بادشاہ بن بیٹھے۔ ابن عباد نے اشبیلیہ میں ، ابن افطس نے بطلیوس میں ، ابن ذی النون نے طلیطلہ میں ، ابن ابی عامر نے بلنسیہ و مرسیہ میں ، ابن ہود نے سرقسطہ میں اور مجاہد عامری نے رانیہ اور جزائر میں خود مختارانہ حکومتیں شروع کر دیں ۔ شمالی عیسائی سلاطین نے اس مناسب موقع اور موزوں وقت سے فائدہ اٹھانے میں کمی نہیں کی۔ ہر ایک عیسائی ریاست نے اپنے حدود کو وسیع کر کے اپنے قریبی علاقوں کو اپنی اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ غرض اندلس میں طائف الملوکی کا زمانہ شروع ہو گیا۔ اور حکومت اسلامیہ پارہ پارہ ہو کر بے حد کمزور و ناتوان ہو گئی۔
مستعین کا قتل:
محرم ۴۰۷ھ تک مستعین نے قرطبہ اور اس کے مضافات پر حکومت کی اور تین سال چند ماہ برائے خلافت کے بعد اشبیلیہ کے متصل مقام طالقہ کے میدان میں علی بن حمود سے شکست کھا کر گرفتار و مقتول ہوا اور بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ درحقیقت بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ تو حکم ثانی کی وفات اور ہشام ثانی کی تخت نشینی کے وقت ہو چکا تھا۔ مگر ہشام ثانی کے زمانے میں بھی خاندان بنوامیہ کی عظمت بحیثیت خاندان خلافت باقی تھی۔
|