سے دیکھا جائے تو اس میں شک نہیں کہ حکم نے بہت سے لوگوں کو قتل کرایا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جن لوگوں کو قتل کرایا گیا وہ مستحق قتل تھے یا نہیں اور سلطان حکم نے مجبوراً ان کو قتل کرایا یا صرف تفریح طبع کے لیے۔ سلطان حکم نے ۲۵ ذیقعدہ ۲۰۶ھ بروز پنج شنبہ بعمر ۵۲ سال چند ماہ وفات پائی اور بیس ۲۰ لڑکے بیس لڑکیاں چھوڑیں ۔ سلطان حکم کے بعد اس کا بیٹا عبدالرحمن ثانی یا عبدالرحمن اوسط تخت نشین ہوا۔
حکم کی سیرت و کردار پر تبصرہ:
سلطان حکم بہادر، فیاض اور عاقبت اندیش شخص تھا مکاروں اور خفیہ سازشیں کرنے والوں کا دشمن اور اپنے دوستوں کے لیے بہت بامروت اور ہمدرد تھا، علماء وفضلاء کا قدردان اور شعراء کامربی تھا۔ میدان جنگ میں مستقل مزاج اور جہاں کہیں معاف کرنے سے اصلاح کی توقع ہو فوراً خطا کار کو معاف کر دیتا تھا۔ وہ اندلس کا ایک جلیل القدر اور عظیم الشان بادشاہ تھا۔ سلطان حکم کے دیندار اور باللہ تعالیٰ ہونے کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ اس نے ایک روز اپنے کسی خادم پر ناراض ہو کر حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے۔ اتفاقاً اس وقت زیاد بن عبدالرحمن جو ایک عالم شخص تھے آ پہنچے اور سلطان حکم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ مالک بن انس نے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جو شخص اپنے غیظ و غضب کو باوجود قدرت ضبط کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے قلب کو امن و اطمینان سے پر کر دے گا۔اس کلام کے ختم ہوتے ہی سلطان حکم کا غیظ و غضب کافور ہو گیا اور خادم کی خطا معاف کر دی۔
سلطان حکم کا ۲۷ سالہ عہد حکومت ہنگامہ آرائی اور بے اطمینانی کے عالم میں گزرا، اس بے اطمینانی اور بدامنی کے اسباب حکم کے پیدا کیے ہوئے نہ تھے بلکہ قدرتی دار ہونے والی افتادیں تھیں ۔ اس زمانہ میں اگر حکم سے کسی قدر کم مستقل مزاج شخص تخت اندلس پر ہوتا تو یقینا بنوامیہ کی حکومت اندلس سے مٹ جاتی اور وہاں کے مسلمانوں کا انجام خطرناک ہوتا۔ سلطان حکم کا نہایت سخت امتحان قدرت نے لیا اور وہ اس امتحان میں بظاہر کامیاب ہوا۔
عبدالرحمن ثانی:
سلطان عبدالرحمن ثانی ماہ شعبان ۱۷۶ھ میں بمقام طلیطلہ پیدا ہوا اور ۲۰۶ھ میں اپنے باپ سلطان حکم کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ سلطان عبدالرحمن ثانی کی تخت نشینی کے وقت بظاہر ملک میں امن و امان تھا اور اندرونی و بیرونی فتنوں کو فرو کیا جا چکا تھا، مگر اس سلطان کو تخت نشین ہوتے ہی اپنے خاندان والوں کی بغاوت کا مقابلہ کرنا پڑا۔
|