نہایت جوش و خروش کے ساتھ متحرک ہوا۔ شیخ الغزاۃ پیچھے ہٹتا جاتا تھا اور عیسائی لشکر جوش مسرت میں بڑھا چلا آتا تھا۔ جب ابوالجیوش کے سامنے سے یہ لشکر گذرا تو وہ اپنے ایک ہزار ہمرایوں کو لے کر شیر نیستان کی طرح جھاڑی سے نکل کر عیسائیوں پر ٹوٹ پڑا۔ ابوالجیوش کے حملہ آور ہوتے ہی شیخ الغزاۃ بھی رک کر حملہ آور ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سلطان ابو الوالید بھی تیسری سمت سے اپنے تین سو سواروں کو لے کر حملہ آور ہوا۔ اس کے بعد ہی بقیہ فوج نے بڑی بے جگری کے ساتھ حملہ کیا۔ بظاہر یہ حملہ آور رستم اس کئی لاکھ کے لشکر عظیم کے سامنے کوئی حقیقت ہی نہ رکھتے تھے۔ مگر مسلمانوں نے اپنی جان پر کھیل کر اور زندگیوں سے مایوس ہو کر شوق شہادت میں اس شدت سے حملے کیے تھے کہ عیسائی لشکر حواس باختہ ہو کر تاب مقاومت نہ لا سکا۔ اور جدھر جس کا منہ اٹھا بھاگنے لگا۔ ایک لاکھ عیسائی میدان جنگ میں کھیت رہے اور باقی اپنی جان بچا کر لے گئے۔ غالباً یہ لڑائی جو جنگ البیرہ کے نام سے مشہور ہے اپنی نوعیت میں بے نظیر جنگ ہے۔ سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ اس لڑائی میں صرف تیرہ مسلمان شہید ہوئے تھے۔ ایک طرف تیرہ اور دوسری طرف ایک لاکھ آدمیوں کا ہلاک ہونا عجائبات میں سے ہے۔ میدان جنگ میں سپہ سالار اعظم بطروہ اور پچیس معاونین کی لاشیں بھی موجود تھیں ۔ سات ہزار قیدیوں میں بطروہ کی بیوی اور بیٹے بھی شریک تھے۔ بطروہ کی لاش ایک صندوق میں کھ کر شہر غرناطہ کے دروازہ پر لٹکا دی گئی تھی۔ اس شکست فاش سے عیسائیوں کی کمر ٹوٹ گئی اور ان کو معلوم ہوا کہ غرناطہ کی ریاست اندلس سے نام و نشان مٹانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سلطان ابوالولید نے اس فتح پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور عیسائیوں کی درخواست پر ان سے صلح کر کے اپنی سلطنت کے اندرونی انتظام و استحکام میں مصروف ہو گیا اور جب ۷۲۵ھ کو سلطان ابوالولید نے قلعہ مرطاش فتح کیا۔ اس فتح کے بعد جب سلطان واپس غرناطہ میں آیا تو ۲۷ رجب ۷۲۵ھ کو اس کے بھتیجے نے اس کو دھوکے سے قتل کر دیا۔ اراکین سلطنت نے قصاص میں قاتل کو قتل کیا اور سلطان مقتول کے بیٹے محمد کو تخت نشین کیا۔
سلطان محمد:
سلطان محمد نے تخت نشین ہو کر ابوالعلاء عثمان کو اپنا وزیر بنایا۔ وزیر عثمان نے اپنا اقتدار جب حد سے زیادہ بڑھایا اور تخت سلطنت کے لیے مضر ثابت ہونے لگا تو سلطان محمد نے ۷۲۹ھ میں اس کو قتل کرا دیا۔ ۷۳۳ھ میں سلطان محمد نے جبل الطارق کو عیسائیوں سے خالی کرا لیا۔ عیسائی اس کے بچانے اور واپس لینے کے لیے بحری و بری فوجوں کے ساتھ حملہ آور ہوئے مگر ناکام و نامراد رہے۔ جبل الطارق سے سلطان محمد غرناطہ کو واپس آ رہا تھا کہ ابوالعلاء عثمان کے بیٹوں اور رشتہ داروں نے موقع پاکر سلطان
|