Maktaba Wahhabi

349 - 868
سلطنت کا رعب قائم نہ رہ سکا، چنانچہ تیونس میں خاندان زیریہ کی مستقل حکومت ہو گئی جو ۳۶۲ھ سے ۵۴۳ھ تک قائم رہی۔ دولت صمادیہ الجیریا: الجیریا میں خاندان صمادیہ کی مستقل حکومت قائم ہو گئی، اور یہ حکومت ۳۹۸ھ سے ۵۴۷ھ تک قائم رہی، اسی طرح عبیدیوں کے دارالسلطنت کے تبدیل ہونے پر مراکش میں بھی قبائل بربر خود مختار ہو گئے تھے جن کو خاندان مرابطین نے اپنا محکوم بنایا۔ دولت مرابطین: عہد خلافت بنو امیہ میں یمن کے بعض قبائل علاقہ بربر یعنی تیونس و الجیریا و مراکو میں آکر آباد ہوگئے تھے، ان لوگوں نے بتدریج اپنے وعظ و پند اور اپنی اسلامی زندگی کے نمونہ سے بربریوں کو اسلام میں داخل کیا اور انہی کی سعی و کوشش کا یہ نتیجہ ہوا کہ بربری لوگوں نے اسلام کو قبول کیا، انہی میں سے ایک قبیلہ مراکش میں قیام پذیر تھا، ۴۴۸ھ میں قبیلہ لمتونہ کے فقیہ عبداللہ بن یاسین کے وعظ و پند سے وہ بربری لوگ جو اب تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے مسلمان ہو گئے اور انہوں نے عبداللہ بن یاسین کو اپنا سردار بنانا چاہا مگر عبداللہ نے انکار کر کے ابو بکر بن عمر ایک شخص کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ نو مسلم بربریوں نے ابوبکر بن عمر کو اپنا سردار بنا کر امیر المسلمین کے نام سے پکارنا شروع کیا، اس جمعیت کو دیکھ کر ارد گرد کے بہت سے قبائل آ آکر جمع ہونے شروع ہوئے۔ مراکش میں ان دنوں کوئی مستقل حکومت قائم نہ تھی، بلکہ الگ الگ قبائل کی حکومتیں قائم تھیں ، اور کوئی کسی کا محکوم نہ تھا، اس طائف الملوکی کے زمانے میں ابوبکر بن عمر کی طاقت دم بدم ترقی کرنے لگی، ابوبکر بن عمر نے اپنے ہمراہیوں کو مرابطین کا خطاب دیا، یعنی سرحد اسلام کی حفاظت کرنے والی فوج، انہی کو ملثمین بھی کہتے ہیں ، ابوبکر نے بربری قبائل میں خدمت اسلام کا جوش پیدا کر کے ان کو خوب بہادر و اولوالعزم بنا دیا اور مراکش سے مشرق کی جانب پیش قدمی کر کے بحلملاسہ کو فتح کر لیا اور اپنے چچا زاد بھائی یوسف بن ساشفین کو بحلملاسہ کا حاکم مقرر کیا۔ یہ یوسف بن تاشفین بڑا دین دار اور بہادر و عقل مند تھا، ۴۵۳ھ میں جب ابوبکر بن عمر کا انتقال ہوا، تو یوسف بن تاشفین اس ملک کا بادشاہ ہوا، ۴۶۰ھ میں یوسف نے شہر مراکش آباد کیا اور اسی کو اپنا دارالسلطنت بنایا۔ ۴۷۲ھ میں جب کہ عیسائیوں نے ہسپانیہ کے مسلمان رئیسوں کو اپنی حملہ آوریوں سے بہت تنگ
Flag Counter