مدینہ منورہ کے اندر ان دونوں بھائیوں نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا بہت سے آدمی طرفین سے مقتول ہوئے، ایک مہینہ تک ۲۷۷ھ میں مدینہ منورہ کے اندر نماز جمعہ ادا نہیں ہو سکی، اسی قسم کی حالت مکہ معظمہ کی بھی تھی، مکہ معظمہ میں یوسف بن ابی الساج عامل تھا۔ اس کی جگہ دربار خلافت سے احمد بن محمد طائی کو سند حکومت مل گئی۔
احمد طائی نے اپنی طرف سے اپنے غلام بدر کو امیر حجاج بنا کر بھیج دیا، یوسف نے مقابلہ کیا، مسجد بیت الحرام کے دروازہ پر جنگ ہوئی، یوسف نے بدر کو گرفتار کر لیا، بدر کے لشکریوں اور حاجیوں نے مل کر حملہ کیا اور یوسف کو گرفتار کر کے بغداد بھیج دیا اور بدر کو آزاد کرا لیا، غرض جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا مضمون تھا۔
موفق کی وفات:
خلیفہ معتمد باللہ برائے نام خلیفہ تھا، اس کا بھائی موفق اپنی بہادری و دانائی کے سبب تمام امور سلطنت پر حاوی اور قابض و متصرف ہو گیا تھا اور یوں سمجھنا چاہیے کہ موفق ہی خلافت کر رہا تھا، اگرچہ وہ باقاعدہ خلیفہ نہ تھا، موفق ولی عہد بھی تھا جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے، اس سے پیشتر ترک سردار دربار خلافت پر قابض و متصرف اور عرصہ داراز سے سیاہ و سفید کے مالک چلے آتے تھے، موفق نے قابو پا کر ان ترک فوجی سرداروں کے زور کو توڑ دیا اور خود قابض و متصرف ہو گیا، چونکہ موفق نے زنگیوں کا زور توڑ کر ان کو نسیت و نابود کر دیا تھا اس لیے اس کی اور اس کے بیٹے معتضد کی قبولیت عام مسلمانوں میں بہت بڑھ گئی تھی، ترک سردار زنگیوں کے مقابلہ میں ہمیشہ ناکام و مغلوب ہوتے رہے تھے، اس لیے ان کو بھی موفق کی مخالفت کا حوصلہ نہ رہا تھا۔
مگر چونکہ سلطنت کی چول چول پہلے ہی ڈھیلی ہو چکی تھی اور آب و ہوا بگڑ چکی تھی، لہٰذا طائف الملوکی کا بازار زیادہ سے زیادہ گرم ہوتا گیا، اور ان طاقتوں کو جو عرصہ سے پرورش پا رہی تھیں اور اب اپنی اپنی جگہ خود مختاری کا اعلان کرتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں ، دبایا نہ جا سکا، تاہم موفق کا وجود دارالخلافہ میں بہت غنیمت تھا اور کسی کو اتنی جرائت نہ ہو سکی تھی کہ خود خلیفہ کی سیادت سے انکار کر سکے یا خطبہ میں خلیفہ کا نام نہ لے۔
موفق جب فارس اور اصفہان سے بغداد واپس آیا تو درد نقرس میں مبتلا ہو گیا، ہر چند علاج کیا مگر آرام نہ ہوا، ۲۲۱ صفر ۲۷۸ھ کو فوت ہو کر رصافہ میں مدفون ہوا، اگرچہ خلیفہ معتمد موجود تھا مگر اس کی حیثیت ایک قیدی سے زیادہ نہ تھی، اصل خلیفہ موفق ہی تھا، اب موفق کے فوت ہونے کے بعد اراکین
|