شارلیمین سے کچھ ہو سکا۔
عبدالرحمن کی وفات:
شارلیمین سے صلح ہو جانے کے بعد امیر عبدالرحمن کے لیے اب کوئی کام باقی نہ رہا تھا، کیونکہ بظاہر ملک میں اس کا رعب و اقتدار بخوبی قائم ہو چکا تھا اور سرکشوں کو اچھی طرح مسل دیا گیا تھا، لیکن پھر بھی امیر عبدالرحمن کو چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔
۱۷۱ھ میں اس کے خادم بدر اور اس کے بعض رشتہ داروں اور ہم قوموں نے اس کے خلاف ایک سازش کی اور تخت اندلس پر خود قبضہ کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ ممکن ہے کہ خلافت عباسیہ کی کسی خفیہ تحریک کا یہ اثر ہو یا اندلس کی روایات قدیمہ نے ان مخلصین کو غداری پر آمادہ کیا ہو، بہر حال امیر عبدالرحمن نے ان لوگوں کو یہی سزاد دینی مناسب سمجھی کہ ان کو اندلس سے خارج کر کے افریقہ کی طرف بھیج دیا۔
اس کے بعد عبدالرحمن تمام ان کاموں سے جو اس کے ہاتھ سے ہونے والے تھے فارغ ہو چکا تھا، ربیع الثانی ۱۷۲ھ میں تنیتیس (۳۳) سال چار مہینے حکومت کرنے کے بعد ۵۸ یا ۵۹ سال کی عمر میں فوت ہوا اور اس کی وصیت کے موافق اس کا بیٹا ہشام تخت نشین ہوا۔
عبدالرحمن کی زندگی پر تبصرہ :
عبدالرحمن بن امیہ کی زندگی کے حالات نہایت مختصر اور مجمل طور پر بیان ہو چکے ہیں ، لیکن اس عجیب و غریب اور دنیا کی عظیم الشان شخص کی زندگی کا صحیح تصور کرنے کے لیے یہ حالات کافی نہیں ہیں ۔ بیس سال کی عمر تک اس کا غالب شغل کتب بینی اور علمی مجالس کی شرکت تھی۔ فنون سپہ گری سے واقف ہونا ضروری و لازمی سمجھا جاتا تھا، بیس سال کی پر راحت زندگی کے بعد اس پر زندگی کا ایک ایسا دور آیا کہ وہ چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح اپنے آپ کو چھپاتا پھرتا تھا اور روئے زمین کا ہر ایک انسان جو اس کو نظر آتا تھا، اپنا قاتل اور خون کا پیاسا جلاد ہی معلوم ہوتا تھا اس کے پاس کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا تک نہ تھا، چند سال اس حالت میں گزارنے اور جنگلی صحراؤں اور ملکوں میں آوارہ رہنے کے بعد وہ ایک ملک کا مالک اور بادشاہ بن جاتا ہے، لیکن یہ بادشاہت کوئی ترلقمہ یا شربت کا گھونٹ نہ تھا، بلکہ مصیبتوں محنتوں کی ایک پوٹ تھی جو اس کے سر پر رکھ دی گئی تھی، اگر عبدالرحمن کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو شروع ہی میں ناکام ہو کر برباد ہو جاتا، مگر عبدالرحمن نے عجیب طاقتور دل اور عجیب پست نہ ہونے والی ہمت پائی تھی وہ اندلس میں ایک تنہا اجنبی شخص تھا اس کے ساتھ کسی قوم کو کوئی خصوصی محبت نہ ہو سکتی تھی، لیکن اس نے جس دانائی، مآل اندیشی، دور بینی اور ہوشیاری سے کام لیا ہے، یہ اسی کا حصہ تھا۔
|