پریشانی اور معرکہ آرائی کے بعد قاسم بن یوسف کو گرفتار کر کے قتل کیا۔
اسی سال یعنی ۱۷۰ھ میں خلیفہ ہارون الرشید تخت نشین ہوا، شارلیمین نے امیر عبدالرحمن کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے امیر عبدالرحمن کی خدمت میں صلح کی درخواست بھیجی اور اپنی بیٹی کی شادی اس سے کرنی چاہی، امیر عبدالرحمن نے شارلیمین کی درخواست صلح کو تو منظور کر لیا، مگر اس کی بیٹی کو اپنی محل سرا میں داخل کرنے سے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا، شارلیمین کی بیٹی حسن و جمال میں بے نظیر اور شہرۂ آفاق تھی، عبدالرحمن نے اس کو اپنی بیوی بنانے سے غالباً اس لیے انکار کر دیا ہو گا، کہ جس طرح شاہ لرزیق کی بیوی ایجیلو نانے امیر عبدالعزیز کے حرم سرا میں داخل ہو کر حکومت اسلامیہ کو نقصان پہنچایا تھا، کہیں یہ عیسائی شہزادی بھی حرم سرائے میں داخل ہو کر موجب خطرہ ثابت نہ ہو، امیر عبدالرحمن کی عمر بھی اب ۵۷ برس کے قریب تھی، اس عمر میں نئی شادیاں کرنے کا شوق عبدالرحمن جیسے ملک گیرو ملک دار اور مصروف الاوقات سلطان کو نہیں ہو سکتا تھا، اور ممکن ہے کہ مؤرخین کا یہ خیال بھی صحیح ہو کہ عبدالرحمن کی ران میں جنگ سرقسطہ کے موقع پر ایک ایسا زخم لگا تھا جس سے وہ عورت کی مقاربت کے قابل نہ رہا تھا بہر حال عبدالرحمن نے شارلیمین کی خطا معاف کر دی اور اس سے صلح کر لی، لیکن شارلیمین کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ خلیفہ بغداد عبدالرحمن کا دشمن ہے اس لیے باوجود اس کے کہ اس کو خلیفہ بغداد سے کسی امداد کی توقع نہیں ہو سکتی تھی تاہم وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ خلیفہ بغداد عبدالرحمن کے سر پر فوجی مہم بھیج سکتا ہے، لہٰذا اس نے بغداد کے نئے خلیفہ ہارون الرشید کی خدمت میں ایک سفارت روانہ کر کے تعلقات پیدا کرنا چاہے، ان دوستانہ تعلقات کے پیدا ہو جانے کی اس لیے بھی توقع تھی کہ وہ اس سے پہلے ہارون الرشید کے باپ مہدی کی منشاء کے موافق ایک مرتبہ اندلس میں فوج لے کر جا چکا تھا اور اس بات کو جانتا تھا، کہ ہارون الرشید ضرور میری دوستی کے لیے محبت کا ہاتھ بڑھائے گا، چنانچہ شارلیمین کا خیال صحیح ثابت ہوا اور خلیفہ ہارون الرشید نے شارلیمین کے سفیروں کی بڑی آؤبھگت کی اور ایک گھڑی شارلیمین کے پاس ہدیتاً بھجوائی۔
شارلیمین کے تعلقات اپنے پڑوسیوں ، یعنی یورپ کے عیسائی بادشاہوں سے زیادہ گہرے نہ تھے، اگر وہ ایسا ہی صلح جو اور الفت پرست ہوتا تو سب سے پہلے یورپ کے عیسائی سلاطین سے محبت و دوستی کے تعلقات ہی بڑھاتا، لیکن اتنے دور دراز یعنی بغداد میں سفارت بھیجنے سے اس کی غرض یہ تھی کہ کسی طرح اندلس کی اسلامی سلطنت کے خلاف کوئی تدبیر کار گر ہو سکے، اسی طرح ہارون الرشید نے بھی شارلیمین سے دوستی کے تعلقات پیدا کرنے میں سلطنت اندلس کی مخالفت مد نظر رکھی تھی، مگر ان دونوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے، اور عبدالرحمن یا اس کی اولاد کو نہ ہارون الرشید کوئی نقصان پہنچا سکا اور نہ
|