عیسائیوں نے جن کو پہاڑی قزاق سمجھا جاتا تھا، شارلیمین کا بہت سا سامان لوٹ لیا تھا اور اس کی فوج کو نقصان پہنچایا تھا اس لیے امیر عبدالرحمن نے ان کی طرف متوجہ ہونے یا ان کو نقصان پہنچانے کا مطلق خیال نہ کیا بلکہ ان کے وجود کو جو اندلس کے شاہی لشکر کے لیے اب تک موجب تکلیف نہ ہوا تھا غنیمت سمجھا۔
فرانس کے میدانوں میں پہنچ کر امیر عبدالرحمن نے فرانس کے نصف جنوبی حصے کو خوب تاخت و تاراج کیا، بہت سے قلعوں کو مسمار کر ڈالا بہت سے شہروں کی شہر پنا ہیں ڈھادیں اور نہایت عجلت کے ساتھ بہت بڑے رقبہ میں تاخت و تاراج کر کے واپس چلا آیا، شارلیمین فرانس کی شمالی حدود کی طرف بھاگ گیا وہ اپنے ملک کے اس جنوبی حصے کو حریف کی تاخت و تاراج سے مطلق نہ بچا سکا، امیر عبدالرحمن فرانس میں زیادہ دنوں تک نہیں ٹھہر سکتا تھا کیونکہ اس کو اپنے ملک کا حال معلوم تھا کہ وہاں بغاوت و سرکشی کا کس قدر سامان موجود ہے لہٰذا وہ فوراً ہی ملک فرانس سے واپس چلا آیا اور قرطبہ میں پہنچ کر مشکل سے چند مہینے گزارے ہوں گے کہ ۱۶۵ھ میں سرقسطہ سے حسین بن عاصی کے باغی ہونے کی خبر آئی، عبدالرحمن نے غالب بن تمام بن علقمہ کو اس بغاوت کے فرو کرنے کے لیے روانہ کیا، غالب اور حسین میں قریباً ایک سال تک لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور یہ ہنگامہ فرو نہ ہوا تب مجبوراً امیر عبدالرحمن نے ۱۶۶ھ میں خود قرطبہ سے سرقسطہ کی جانب کوچ کیا اور حسین بن عاصی کو گرفتار کر کے قتل کیا اور سرقسطہ کے باغیوں میں سے بہت سوں کو تلوار کے گھاٹ اتار کر بظاہر اس بغاوت کا خاتمہ کر دیا، ان ہنگاموں میں جو کئی سال سے برپا تھے ابوالاسود بوجہ اپنی ناتجربہ کاری کے امارت و سرداری کا مرتبہ باغیوں میں حاصل نہ کر سکا تھا وہ بچ بچا کر کہیں چھپ رہا اور سیاست شاہی سے محفوظ رہا اگرچہ بظاہر باغی سرداروں میں سے اب کوئی ایسا باقی نہ رہا تھا جو علم بغاوت بلند کر سکتا اور عباسی سازشوں کو پورے طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، تاہم وہ لوگ جن کے عزیز و اقارب جرم بغاوت اور عبدالرحمن کے مقابلہ میں مقتول ہو چکے تھے، اپنے سینوں کے اندر اپنے مقتول عزیزوں کی یاد اور عداوت کا جوش ضرور چھپائے ہوئے تھے۔ بعض واقعہ پسند لوگوں نے ابوالاسود کو جو مقام قطلونہ میں روپوش تھا خروج پر آمادہ کیا اور ۱۶۸ھ میں اس کے گرد اسی قسم کے ہنگامہ پسند لوگوں کا ایک جم غفیر فراہم ہو گیا عبدالرحمن نے اس کو وادیٔ احمر میں شکست دے کر بھگا دیا اور وہ پہاڑوں میں جا چھپا ۱۶۹ھ میں ابوالاسود پھر میدان میں نکلا اور عبدالرحمن کے مقابلہ میں چار ہزار ہمراہیوں کو قتل کرا کر بھاگ گیا، اگلے سال ۱۷۰ھ میں ابوالاسود فوت ہو گیا اور اس کے ہمراہیوں نے جو لٹیروں اور ڈاکہ زنوں کی حالت میں تھے اس کے بھائی قاسم بن یوسف کو اپنا سردار بنایا اور بہت جلد ایک عظیم الشان فوج اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئی، امیر عبدالرحمن نے اس پر چڑھائی کی اور سخت
|