فوج بھاگ کر قرطبہ میں عبدالرحمن کے پاس پہنچی اور باغیوں کی قوت و طاقت سے اس کو مطلع کیا۔
ثعلبہ کی گرفتاری کے بعد ہی شاہ فرانس جو اپنی لاتعداد فوج لیے ہوئے جبل البرتات کے اس طرف جنوبی فرانس میں پڑا ہوا تھا روانہ ہوا، فوج اس قدر زیادہ تھی کہ جبل البرتات کے ایک درہ میں ہو کر نہیں گذر سکتی تھی، لہٰذا اس کے دو حصے کیے گئے، اور پہاڑ کے دو مختلف راستوں سے عبور کر کے شہر سرقسطہ کی فصیل کے نیچے دونوں طرف آکر جمع ہو گئی، اس عیسائی لشکر کی کثرت اور اندلس سے اسلامی اثر کے محو کر دینے کے ارداہ کی شہرت جب سرقسطہ کے مسلمانوں نے سنی، تو انہوں نے سلیمان بن یقظان کو ملامت کی بالخصوص حسین بن عاصی نے بھی اس انجام کو بہت ہی گراں محسوس کیا اور شہر سرقسطہ کے دروازے بند کر لیے، شارلیمین کو جب یہ محسوس ہوا کہ مسلمانان سرقسطہ میری امداد و اعانت میں پہلو تہی کریں گے اور امیر عبدالرحمن کے آنے پر ممکن ہے کہ اس کے ساتھ شامل ہو جائیں تو وہ سرقسطہ سے بے نیل و مرام فرانس کی جانب واپس ہوا۔
شارلیمین کے آنے کے وقت ایسٹریاس کی عیسائی ریاست بھی اس کی حامی و معاون بن گئی تھی اور ان پہاڑی عیسائیوں نے شارلیمین کو عیسائیوں کا نجات دہندہ سمجھ کر اس کی فوج کے گزارنے میں مدد کی تھی، لیکن جب وہ خوف زدہ ہو کر فرانس کی جانب واپس ہونے لگا، تو ان پہاڑی عیسائیوں نے اس کی فوج کے پچھلے حصے پر چھاپے مارنے شروع کیے اور شمالی میدان میں پہچنے تک اس کے کئی مشہور و معروف سپہ سالاروں اور فوج کے ایک بڑے حصے کو قتل کر دیا گویا ان پہاڑی عیسائیوں نے جو پہاڑوں کے اندر خود مختارانہ زندگی بسر کر رہے تھے اور اپنی طاقت کو دم بدم بڑھا رہے تھے شارلیمین کو اس بات کی سزا دی کہ وہ کیوں مسلمانوں سے ڈر کر واپس ہوا۔
جب شارلیمین واپس ہوا تو حسین بن عاصی نے سلیمان بن یقظان کو قتل کر کے خود سرقسطہ کی حکومت اور باغی افواج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی، اس کے بعد ہی امیر عبدالرحمن بھی قرطبہ سے فوجیں لیے ہوئے سرقسطہ کے سامنے آ پہنچا اور فوراً سرقسطہ پر محاصرہ ڈال دیا حسین بن عاصی نے اظہار اطاعت اور صلح کی درخواست کی امیر عبدالرحمن نے اس کی یہ درخواست منظور کر لی، سرقسطہ سے فارغ ہو کر امیر عبدالرحمن نے شاہ فرانس کے اندلس کی طرف آنے کے جواب میں فرانس کا قصد کیا اور پہاڑی دروں کو بآسانی عبور کر کے فرانس کے میدان میں پہنچ گیا، اس موقع پر ایسٹریاس والے عیسائی اپنے پہاڑوں کے گوشوں میں چھپے اور سہمے ہوئے بیٹھے رہے اور انہوں نے اسی کو بہت غنیمت سمجھا کہ امیر عبدالرحمن ہماری طرف ملتفت ہی نہ ہو، جیسا کہ پہلے بھی کوئی امیر ان کی طرف ملتفت نہ ہوا تھا، چونکہ اس مرتبہ ان پہاڑی
|