میں تھا ان دونوں نے خلیفہ مہدی عباسی سے خط و کتابت کی، خلیفہ مہدی بڑا نیک اور بااللہ تعالیٰ خلیفہ تھا مگر یہ انسانی فطرت کا تقاضا تھا کہ اس کو بنی امیہ سے نفرت اور عبدالرحمن کے اندلس میں برسر ماتحت ہونے سے ملال تھا، دربار بغداد سے ان لوگوں کی ہمت افزائی ہوئی اور ان دونوں نے فرانس کے بادشاہ شارلیمن سے خط و کتابت کر کے اس کو ملک اندلس پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور یہ بھی بتایا کہ خلیفتہ المسلمین مہدی عباسی جو تمام عالم اسلامی کے دینی و دنیوی پیشوا ہیں ، ان کا بھی یہی منشا ہے، کہ عبدالرحمن اور اس کی حکومت کو مٹا دیا جائے، لہٰذا ہم اور اکثر مسلمانان اندلس آپ کے شریک حال اور ہر طرح معاون و مدد گار ہوں گے، شارلیمین کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی زریں موقع اندلس کی فتح کا نہ ہو سکتا تھا اور اندلس کی فتح سے بڑھ کر کوئی دوسرا کارنامہ اس کی شہرت و عظمت کے لیے ممکن نہ تھا، مگر وہ صوبہ اربونیہ اور شہر ناربون کے مٹھی بھر بے یارو مدد گار مسلمانوں کی ہمت و استقلال اور شجاعت و بہادری سے خوب واقف تھا، اس لیے اس نے اندلس پر حملہ کرنے میں عجلت و شتاب زدگی سے کام نہیں لیا، بلکہ اچھی طرح اپنی فوجی تیاریاں کیں اور ساتھ ہی اندلس کے ان باغیوں اور غداروں سے خط و کتابت کر کے ہر قسم کی واقفیت بہم پہنچائی، اسی سلسلہ میں مناسب سمجھا گیا، کہ اندلس کے سابق امیر یوسف فہری کے بیٹے ابوالاسود کو جو قرطبہ کے متصل ایک قلعہ میں نظر بند ہے آزاد کرایا جائے تاکہ اس کی وجہ سے مسلمانان اندلس کی توجہ امیر عبدالرحمن کی مخالفت میں زیادہ کام آ سکے، ابوالاسود کی رہائی کا حال اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو نابینا ظاہر کر کے قید سے رہائی حاصل کی تھی ابوالاسود بھی ۱۶۴ھ میں آزاد اور فرار ہو کر باغیان سرقسطہ میں جا کر شامل ہو گیا ادہر شاہ فرانس شارلیمین لاکھوں کی تعداد میں فوج فراہم کر کے کیل کانٹے سے درست ہو گیا اور اپنی اس فوج کشی کا مقصد اندلس سے مسلمانوں کا اخراج اور عیسائیوں کی حکومت کا قائم کرنا قرار دیا، جس سے اس کو ہر قسم کی امداد حاصل ہو سکی اور عیسائیوں میں امیر عبدالرحمن کے خلاف بڑا جوش پیدا ہو گیا، شارلیمین کے حملہ کرنے سے پہلے پہلے باغیان سرقسطہ نے علم بغاوت بلند کیا، امیر عبدالرحمن کے لیے یہ سب سے زیادہ نازک اور خطرناک موقع تھا کہ اس کی بربادی کے لیے دربار بغداد کا اخلاقی اثر، مسلمانان اندلس کی عظیم ترین سازش و بغاوت اور عیسائیوں کی عظیم الشان فوجی تیاریاں سب متحد و متفق تھیں اور عبدالرحمن اس خطرہ کی پوری پوری کیفیت سے ناواقف و بے خبر تھا، اس امیر عبدالرحمن نے اپنے ایک سپہ سالار ثعلبہ بن عبید کو سرقسطہ کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، متعدد لڑائیاں ہونے کے بعد ثعلبہ کو سلیمان بن یقظان نے گرفتار کر لیا اور اس بات کے ثبوت میں کہ ہم کس قدر طاقتور آپ کے ہوا خواہ ہیں ، ثعلبہ کو شارلیمین کے پاس بھیجوا دیا، ثعلبہ کی گرفتاری کے بعد اس کی بقیتہ السیف
|