Maktaba Wahhabi

676 - 868
علویوں کی امداد کرنا چاہتا ہوں ۔ میں ضرور بغداد پر چڑھائی کروں گا۔ خوارزم کے لیے تین بزرگوں کی بددعا: شیخ شہاب الدین سہروردی وہاں سے ناکام واپس ہوئے اور خوارزم شاہ کے لیے بددعا کی کہ الٰہی اس پر ظالموں کو مسلط کر۔ خوارزم شاہ نے فوج لے کر کوچ کیا، مگر راستے میں اس قدر برف باری ہوئی کہ فوج کا راستہ بند ہو گیا اور سخت مجبوری کے عالم میں خوارزم شاہ نے چڑھائی کو دوسرے سال پر ملتوی کیا اور راستے ہی سے لوٹ گیا۔ اتفاقاً ایک روز حالت بدمستی میں حکم دیا کہ سیّدنا شیخ مجدالدین حح کو قتل کر دو۔ چنانچہ وہ شہید کر دیئے گئے۔ اگلے دن جب ہوش میں آیا تو اپنی اس حرکت پر پشیمان ہو کر خون بہا سیّدنا شیخ نجم الدین کبریٰ کی خدمت میں بھیجا انہوں نے کہا کہ شیخ شہید کا خوں بہا تو میرا اور تیرا سر ہے اور ساتھ ہی ہزار ہا مسلمانوں کے سر اس خون بہا میں کاٹے جائیں گے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی اور سیّدنا شیخ مجد الدین اور نجم الدین کی بددعاؤں کا نتیجہ تھا کہ خوارزم شاہ پر آفت نازل ہوئی۔ چنگیز خاں کا سلطان خوارزم سے اقدام صلح: تفصیل اس کی یہ ہے کہ چنگیز خان نے مغولستان کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو مٹا کر ایک زبردست سلطنت قائم کر لی تو اس نے مناسب سمجھا کہ اپنے مدمقابل سلطان محمد خوارزم شاہ سے صلح اور دوستی کا عہد قائم کر لو۔ کیونکہ دونوں کی حدود ایک دوسرے سے مل گئی تھیں چنگیز خان نے اپنے ایلچیوں کے ہاتھ محمد خوارزم شاہ کی خدمت میں ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ میں نے اس قدر وسیع ممالک فتح کر لیے ہیں اور میرے زیر فرمان اس قدر جنگ جو قبائل ہیں کہ اب مجھ کو دوسرے ملکوں کے فتح کرنے کی آرزو اور تمنا نہیں ہے۔ اسی طرح تم بھی بہت سے ملکوں پر قابض و متصرف اور بہت بڑے بادشاہ ہو۔ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم تم دونوں آپس میں محبت و دوستی کا عہد کریں تاکہ ہر ایک دوسرے کی طرف سے مطمئن رہیں اور صلاح و فلاح خلائق میں اطمینان کے ساتھ مصروف ہو جائیں ۔ اس خط میں چنگیز خان نے یہ بھی لکھا تھا کہ میں تم کو اپنے بیٹے کی طرح عزیز سمجھوں گا۔ اس خط کو پڑھ کر محمد خوارزم شاہ نے بظاہر چنگیز خان کے سفیروں کی خاطر مدارات کی اور دوستی کا عہدنامہ لکھ دیا۔ مگر خط کے اس آخری لفظ یعنی بیٹے والے فقرے کو اس نے ناپسند کیا اور اپنی تحقیر سمجھا۔ عہدنامہ میں طرفین نے تجارت کی آزادی کو تسلیم کیا اور تاجر ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے لگے۔ چنگیز خان اگرچہ کافر تھا، مگر ہم کو اس کی اس دانائی کی داد دینی چاہیے کہ اس نے ایک زبردست بادشاہ کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے آشتی میں ابتدا کی۔ یہ بات بھی اس کی دانائی کی دلیل ہے کہ عہدنامہ صلح میں اسی کی خواہش سے تاجروں کے آنے جانے کی آزادی کا ذکر کیا گیا۔ بظاہر
Flag Counter