کے سب خاموش اور دم بخود رہے۔ سلطان نے تین مرتبہ یہی لفظ کہے اور ہر مرتبہ خاموشی کے سوا کوئی لفظ کسی سے نہ سنا، آخر اس خاموشی کو عبداللہ نامی ایک دربان جو سامنے اپنی خدمت پر مامور و موجود تھا اس طرح قطع کیا کہ وہ آگے بڑھا اور سلطان کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر مؤدبانہ عرض کیا کہ میں اور میرے ساتھی سلطانی جھنڈے کے نیچے ایران کے بادشاہ سے لڑیں گے اور خوب داد شجاعت دے کر ایرانیوں کو شکست فاش دیں گے یا میدان میں مارے جائیں گے، سلطان عبداللہ کے اس کلام کو سن کر بہت خوش ہوا اور اسی وقت اس کو دربانی کے عہدے سے ترقی دے کر ایک ضلع کا کلکٹر بنا دیا، اس کے بعد دوسرے سرداروں کو بھی جرائت ہوئی اور انہوں نے اپنی آمادگی کا اظہار کیا، شاہ اسماعیل صفوی اور سلطان سلیم عثمانی کی لڑائی کا حال لکھنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسمٰعیل صفوی اور اس کے بادشاہت تک پہنچنے کا حال بیان کر دیا جائے۔
اسمٰعیل صفوی کا حال:
اسمٰعیل صفوی کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے، اسماعیل بن حمید، بن جنید، بن ابراہیم، بن خواجہ علی بن صدرالدین، بن شیخ صفی الدین بن جبرئیل۔ اس خاندان میں سب سے پہلے جس شخص نے شہرت و ناموری حاصل کی وہ شیخ صفی الدین تھے جو اردبیل میں سکونت پذیر اور پیری مریدی کرتے تھے انہی کے نام سے اس خاندان کا نام صفی خاندان مشہور ہوا۔ جب شیخ صفی الدین کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے صدر الدین نے باپ کا خرقہ سنبھالا اور اپنے باپ کے مریدین اور حلقہ اثر میں پیر طریقت تسلیم کیے گئے۔ شیخ صدر الدین سلطان بایزید یلدرم اور تیمور کے ہم عصر تھے تیمور نے ۸۰۴ھ میں سلطان بایزید یلدرم کو شکست دے کر گرفتار کیا تو اس کے ساتھ اور بھی بہت سے ترک سپاہی اس لڑائی میں قید ہوئے، تیمور اس فتح کے بعد اردبیل پہنچا تو وہاں عقیدۃ یا مصلحتاً شیخ صدر الدین کی خانقاہ میں بھی گیا اور شیخ سے کہا کہ اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو یا کوئی کام میرے کرنے کا ہو تو فرمائیے میں اس کو ضرور پورا کروں گا۔ شیخ صدر الدین نے کہا کہ جنگ انگورہ میں جس قدر ترک سپاہی تم نے قید کیے ہیں ان سب کو رہا کر دو، تیمور نے فوراً ان کے آزاد کر دینے کا حکم دیا یہ ترک قیدی آزاد ہوتے ہی شیخ کے مرید ہو گئے اور اردبیل ہی میں طرح اقامت ڈال کر شیخ صدر الدین کی خدمت گزاری میں مصروف رہنے لگے، شیخ صدر الدین نے چونکہ سفارش کر کے ان کو آزاد کرایا تھا اس لیے انہوں نے اس احسان کا بدلہ یہی مناسب سمجھا کہ شیخ کے مریدوں میں شامل ہو کر اپنی بقیہ زندگی شیخ کی خدمت میں گزار دیں ۔ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ان ترک قیدیوں کی اولاد بڑھتی گئی اور ساتھ ہی ان کی عقیدت و فرماں برداری شیخ اور شیخ کی اولاد کے ساتھ ترقی
|