کرتی گئی۔ تیمور کی وفات کے بعد تیموری سلطنت اس کی اولاد میں تقسیم ہو کر پارہ پارہ ہو گئی تھی، بحیرہ قزوین اور بحیرہ اسود کے درمیانی علاقے یعنی آذربائیجان میں ترکمانوں کے قبیلہ قراقو نیلو نے تیمور کے بعد ہی اپنی حکومت دوبارہ قائم کر لی تھی، اسی طرح کردستان یعنی عراق کا شمالی حصہ ترکمانوں کے دوسرے قبیلہ آق قونیلو کے حصے میں آ گیا، ترکمانان آق قونیلو کردستان میں تیمور ہی کے زمانہ سے بطور باج گزار فرماں روا تھے، قراقونیلو کا سردار قرایوسف ترکمان تیمور سے برسر پر خاش اور اس کی زندگی میں مصر وغیرہ کی طرف فرار رہا، تیمور کی وفات کا حال سنتے ہی واپس آکر آذر بائیجان کا حاکم نشین شہر تھا اور کردستان کا دارالسطنت دیار بکر تھا، شیخ صدر الدین کا پڑپوتا شیخ جنید تھا شیخ جنید کے زمانہ میں مریدوں کی اس قدر کثرت ہوئی کہ جہاں شاہ ابن قرایوسف ترکمان بادشاہ آذربائیجان نے متوہم ہو کر شیخ جنید کو حکم دیا کہ آپ اردبیل سے تشریف لے جائیں اس حکم کی تعمیل میں شیخ جنید اپنے مریدوں کے ساتھ جو سب تقریباً انہیں مذکورہ ترک قیدیوں کی اولاد تھے اردبیل سے رخصت ہو کر دیاربکر کی طرف روانہ ہوا، دیابکر یعنی کردستان کا بادشاہ اس زمانہ میں حسن طویل آق قونیلو تھا، اس نے جب شیخ جنید کی اس طرح تشریف آوری کا حال سنا تو بہت خوش ہوا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ شیخ کا استقبال کیا اور عزت و آرام کے ساتھ شیخ اور اس کے مریدوں کو ٹھہرایا، چند روز کے بعد حسن طویل نے اپنی بہن کی شادی شیخ جنید سے کر دی، ترکمانوں کے ان دونوں قبیلوں یعنی آق قونیلو اور قراقونیلو میں قدیمی رقابت چلی آتی تھی چوں کہ شیخ جنید ایک درویش گوشہ نشین کی حیثیت سے تبدیل ہو کر شاہی خاندان کے قریبی رشتہ دار بن چکے تھے اور ریاست و حکومت ان کے گھر میں داخل ہو چکی تھی، لہٰذا انہوں اپنے مریدوں کو جو ترک سپاہیوں کی اولاد تھے درویشوں سے سپاہیوں کی شکل میں تبدیل کر دیا اور ایک فوج ترتیب دے کر حسن طویل کے مشورے سے اردبیل پر حملہ کیا چوں کہ اردبیل کے بادشاہ نے شیخ کو اردبیل سے خارج کیا تھا اس لیے یہ حملہ آوری اور فوج کشی انتقاماً سمجھی گئی اور شیخ کے مریدوں یا دوسرے لوگوں کو زیادہ عجیب نہ معلوم ہوئی شیخ کا جب جہاں شاہ سے مقابلہ ہوا تو شیخ کو جو ایک نا تجربہ کار سپہ سالار تھا فرار ہونا پڑا وہاں سے فرار ہو کر شیخ حاکم شیروان پر جا چڑھے جو جہاں شاہ کا حلیف اور دوست تھا، مگر جب شاہ شیروان کی فوج سے مقابلہ ہوا تو شیخ کو پھر شکست ہوئی اور اسی افراتفری میں کہ شیخ اپنی جان بچا کر لے جانے کی فکر میں تھا ایک تیر آکر لگا اور شیخ نے سفر آخرت اختیار کیا۔
شیخ جنید کے مارے جانے پر اس کا بیٹا حیدر جو سطان حسن طویل کا بھانجا تھا باپ کی جگہ گدی نشین اور زہد و ارشاد کے سلسلہ کا پیر تسلیم کیا گیا حیدرماں کی جانب سے شہزادہ اور باپ کی جانب سے
|