اوپر پڑھ چکے ہو کہ ابراہیم بن موسیٰ کاظم المعروف بہ ابراہیم قصاب نے یمن کے عامل اسحق بن موسیٰ بن عیسیٰ کو بھگا دیا تھا۔ اسحق بن موسیٰ یمن ہی میں موقع کا منتظر رو پوش رہا۔ اب علویوں کی اس ظالمانہ حکومت اور لوگوں کی نفرت کو دیکھ کر اس نے ایک لشکر بآسانی فراہم کر لیا۔ ابراہیم بھی یمن سے مکہ آیا ہوا تھا۔ اسحق نے یمن سے روانہ ہو کر مکہ پر حملہ کیا۔ علویوں نے ارد گرد کے بدوؤں کو جمع کیا اور خندقیں کھود کر اسحق کے مقابلے پر مستعد ہو گئے۔ اسحق نے اول تو صف آرائی کی، مگر پھر کچھ سوچ کر وہاں سے سیدھا عراق کی جانب چل دیا۔ ادھر حسن بن سہل نے عراق سے فارغ ہو کر ہرثمہ بن اعین کو حجاز و یمن کے فسادات مٹانے کی طرف توجہ دلائی۔ ہرثمہ نے رجاء بن جمیل اور جلودی کو ایک فوج دے کر مکہ کی جانب روانہ کیا۔ ہرثمہ کا فرستادہ یہ لشکر ادھر سے جا رہا تھا ادھر سے اسحق آ رہا تھا، راستے میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اسحق بھی ان لوگوں کے ساتھ مکہ کی جانب لوٹ پڑا وہاں پہنچ کر علویوں کو مقابلہ پر مستعد پایا۔ سخت معرکہ آرائی کے بعد علویوں کو شکست ہوئی اور عباسی لشکر فتح مند ہو کر مکہ میں داخل ہوا۔
محمد بن جعفر نے امان طلب کی، ان کو امان دی گئی، محمد بن جعفر مکہ سے جحفہ اور جحفہ سے بلاد جہنیہ کی طرف چلے گئے، وہاں انہوں نے لشکر جمع کرنا شروع کیا۔ جب ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا تو مدینہ منورہ پر حملہ کیا۔ مدینہ کے عامل ہارون بن مسیب نے مقابلہ کیا۔ متعدد لڑائیاں ہوئیں ، آخر دیباچہ عالم محمد بن جعفر صادق نے شکست فاش کھائی اور بلاد جہنیہ کی طرف واپس آئے۔ اسی لڑائی میں ایک آنکھ بھی جاتی رہی اور ہمراہی ان کے بہت زیادہ مارے گئے۔ اگلے سال موسم حج میں رجاء بن جمیل اور جلودی سے جو ابھی تک مکہ کی حکومت پر مامور تھے امان حاصل کر کے مکہ میں آئے اور لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا کہ میں جانتا تھا کہ مامون الرشید فوت ہو چکا ہے۔ اسی لیے میں نے لوگوں سے بیعت لی تھی۔ اب صحیح خبر پہنچ گئی ہے کہ مامون زندہ ہے۔ لہٰذا میں تم لوگوں کو اپنی بیعت سے سبکدوش کرتا ہوں ۔ حج ادا کرنے کے بعد ۲۰۱ھ میں حسن بن سہل کے پاس بغداد چلے گئے۔ اس نے مامون کے پاس بھیج دیا۔ مامون نے ان کو عزت سے رکھا۔ جب مرو سے عراق کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں بمقام جرجان فوت ہوئے۔
ہرثمہ بن اعین کا قتل !
فضل بن سہل نے ہارون الرشید کی وفات کے بعد مامون کی خوب ہمت بندھائی تھی اور اسی نے امین کے مقابلے کے لیے سازو سامان کیے تھے۔ مامون نے اس کو وزیر اعظم اور صاحب السیف والقلم بنا دیا تھا، ایرانی مامون کی طرف اس لیے مائل تھے کہ اس کی ماں ایرانی تھی اور اس نے جعفر سے تربیت پائی تھی اور اس نے ایرانیوں کو چوتھائی خراج معاف بھی کر دیا تھا۔ لہٰذا فضل کو اپنی وزارت اور خلیفہ پر قابو
|