رہی ہیں ۔
قرامطہ سے جھڑپیں :
معز نے قاہرہ پہنچتے ہی قرامطہ کے بادشاہ اعصم کو جو اس زمانے میں اپنے دارالحکومت احساء میں مقیم تھا ایک خط لکھا۔ اس خط میں لکھا کہ تم لوگ پہلے ہمارے ہی باپ دادا کے مناد بنے ہوئے پھرتے تھے اور ہماری محبت کا دعویٰ کرتے تھے۔ اب مناسب یہی ہے کہ تم ہماری اطاعت و فرماں برداری قبول کرو اور ہمارے مقابلے اور مخالفت کا خیال بالکل ترک کر دو۔ اسی قسم کے مضامین نصیحتوں سے لبریز ایک طویل خط بھیجا گیا۔ یہ خط جب اعصم کے پاس احساء میں پہنچا تو اس نے اس کے جواب میں معز کو لکھا کہ’’تمہارا خط ہمارے پاس پہنچا جس میں نفس مطلب تو کم فضول باتیں زیادہ ہیں ہم تم پر فوج کشی کرنے والے ہیں … والسلام‘‘
اعصم نے یہ جواب مصر کی جانب روانہ کر کے فوج کو تیاری کا حکم دیا اور خود فوج لے کر مصر کی طرف روانہ ہوا اور حدود مصر میں داخل ہو کر مقام عین شمس میں قیام کیا۔ یہاں تمام فوجیں قرامطہ کی آ آکر جمع ہو گئیں ۔ حسان بن جراح طائی امیر عرب بھی طے کا بہت بڑا گروہ لے کر اعصم کے پاس پہنچ گیا۔ اعصم و حسان نے باہم مشورہ کر کے اپنی فوج کے دستوں کو ملک مصر کے قصبوں کی تاخت و تاراج کے لیے پھیلا دیا اور اس طرح مصر میں قتل و غارت اور خونریزی کا بازار گرم ہو گیا۔ معز کو قرامطہ کی کثرت فوج سے بڑا خوف پیدا ہوا۔ قرامطہ نے بہت جلد قاہرہ پر حملہ کیا۔ معز نے قرامطہ کی رفتار ترقی دیکھ کر یہ تدبیر کی کہ حسان بن جراح سے پیام سلام جاری کر کے اس سے وعدہ کیا کہ ہم ایک لاکھ دینار بطور رشوت آپ کی نذر کرنے پر تیار ہیں بشر طیکہ آپ اعصم کو تنہا چھوڑ کر میدان سے اپنی فوجوں کو واپس لے جائیں ۔ چنانچہ حسان اس رشوت کے قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ قرار داد کے موافق جب کہ معز اپنی فوجیں لے کر میدان میں نکلا اور قرامطہ پر حملہ کیا یعنی معرکہ جنگ گرم ہوتے ہی مع اپنی فوج کے میدان چھوڑ دیا۔ حسان اور اس کی فوج کے بھاگنے سے اعصم اور اس کی فوج کا دل ٹوٹ گیا۔ مگر تاہم انہوں نے جم کر مقابلہ کیا اور بالآخر شکست کھا کر بھاگے۔ قریباً ڈیڑھ ہزار قرامطہ گرفتار ہوئے۔ معز نے فوراً اپنے سپہ سالار ابو محمود کو دس ہزار فوج دے کر قرامطہ کے تعاقب پر مامور کیا۔ چنانچہ ابو محمود نے ان کو کسی جگہ ٹھہرنے نہیں دیا اور حدود مصر سے نکال کر احساء کی طرف چلے جانے پر مجبور کر دیا۔
دمشق پر قبضہ:
اس فتح کے بعد معز نے قرامطہ کے قیدیوں کو قتل کرا دیا اور دمشق کی حکومت پر ظالم بن موہوب عقیلی
|