زیادہ سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جاتے تھے۔
بعد میں جب خلفاء بہت کمزور ہونے لگے اور دیلمی امیر الامراء یا سلجوقی سلاطین خلافت پر مسلط ہو گئے، خلیفہ کا وزیراعظم الگ ہوتا اور ان سلاطین کا وزیراعظم جدا ہوتا تھا، اس زمانہ میں خلیفہ کی وزارت کوئی بہت بڑی چیز نہیں سمجھی جاتی تھی، اس دو عملی کے زمانے میں بعض اوقات خلیفہ کے وزیر کو رئیس الرؤساء اور سلطان کے وزیر کو وزیر کہتے تھے، بعض اوقات خلیفہ کے وزیر کو خلیفہ سے زیادہ اختیارات حاصل ہوتے تھے اور جب کہ خلیفہ کا وزیر سلطان نے مقرر کیا ہو تو خلیفہ اپنے وزیر کا قیدی ہوتا تھا۔
وزیر اعظم کا انتخاب عموماً خلیفہ اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر کرتا تھا اور بعض اوقات وہ نہایت معمولی طبقہ میں سے ایک شخص کو خلعت وزارت دے کر سب سے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیتا تھا اور کبھی ایک وزیر کے بعد اس کے بیٹے کو وزارت کا عہدہ دیا جاتا تھا، جعفر برمکی وزیر ہارون الرشید فضل وزیر مامون الرشید، نظام الملک وزیر الپ ارسلان و ملک شاہ بہت مشہور وزیر ہیں ۔
امیر الامراء:
یہ عہدہ خلفاء عباسیہ کے دور انحطاط و تنزل میں قائم ہوا اور لوگوں نے خلیفہ پر مسلط ہو کر امیر الامراء کا خطاب خود اپنے لیے تجویز کر کے خلیفہ سے حاصل کیا، یہ امیر الامراء حقیقتاً عراق و فارس و خراسان کے فرماں روا تھے اور تمام عہدے دار انہی کے ماتحت اور انہی کے مقرر کیے ہوئے ہوتے تھے۔ خلیفہ تو صرف نام یا برائے بیعت ہی ہوتا تھا، دیلمیوں کا زمانہ قریباً سو برس تک رہا اور وہ امیر الامراء کہلاتے تھے۔
سلطان:
جس طرح دیلمیوں نے امیر الامراء اپنا خطاب تجویز کیا، اسی طرح سلجوقیوں نے اپنے لیے سلطان کا خطاب پسند کیا، یہ سلجوقی سلاطین دیلمیوں سے زیادہ طاقتور، زیادہ دین دار اور دینا کے زیادہ وسیع رقبہ پر حکمران تھے، مگر دیلمیوں کی نسبت خلیفہ کے زیادہ فرماں بردار تھے، دیلمیوں نے دربار خلافت کے تمام اثر و اقتدار کو سلب کر لیا تھا، سلجوقیوں نے خلیفہ کی عظمت کو تسلیم کیا اور خلفاء کو حکومت و فرماں روائی کا بھی موقع دیا اور انہی کے زمانہ میں خلفاء نے اپنی شوکت و حکومت کے واپس لینے کی کوشش میں ایک حد تک کامیابی حاصل کی، خلفاء عباسیہ کے ابتدائی عہد خلافت میں امیر الامراء اور سلطان کے عہدے نہ تھے۔
عامل یا والی:
صوبوں اور ولاتیوں کے حاکموں کو عموماً اختیارات حاصل ہوتے تھے اور ہر ایک عامل یا والی اپنے صوبہ کی آمدنی کا ایک مقررہ حصہ دربار خلافت میں بھیجتا رہتا تھا، کبھی کبھی کسی صوبہ کے لیے ایک متعین رقم
|