ساتھ ہی وہ اعلیٰ درجہ کا سپہ سالار اور شمشیرزن سپاہی ثابت ہوا، حالانکہ اندلس میں داخل ہونے سے پہلے اس کو سپہ سالاری اور تیغ زنی کا کوئی تجربہ نہ تھا اس نے کسی میدان اور کسی لڑائی میں کوئی بھی ایسی غلطی نہیں کی جس پر کوئی تجربہ کار سپہ سالار اعتراض یا نکتہ چینی کر سکے، جن لڑائیوں یا مہموں میں اس کے بڑے بڑے تجربہ کار سپہ سالار ناکام رہ جاتے تھے، ان مہموں کو عبدالرحمن جا کر فوراً سر کر لیتا تھا، کسی موقع پر اس کے ہاتھ پاؤں نہیں پھولے اور وہ حواس باختہ نہیں ہوا، حالانکہ بارہا اس پر ایسی مصیبتیں نازل ہوئیں اور اس کے خلاف ایسی بغاوتیں مسلسل ہوئیں کہ دوسرا شخص اس کی جگہ ہوتا، تو عقل و مذہب کی پابندی میں نہ رہ سکتا، یا تو احمقوں کی طرح اپنے آپ کو ہلاک کر دیتا، یا بزدلوں کی طرح ذلیل ہو کر بھاگ جاتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ عبدالرحمن نے اس بات کا موقع ہی نہیں دیا کہ اس کی ہمت کی انتہا اور اس کے استقلال کی آخری سرحد کا کسی کو اندازہ ہو سکے اس نے بڑی سے بڑی ہمت دکھائی، لیکن اس کے معتدل انداز اور متانت آمیز طرز عمل سے ہمیشہ یہی ظاہر ہوا کہ وہ اس سے بھی بہت بڑھ کر ہمت دکھا سکتا ہے۔
اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے اس کی بیوقوفی ثابت ہو سکے بلکہ اس کے ہر کام میں اس قدر دانائی اور دور اندیشی پائی گئی کہ اس سے بڑھ کر دانائی و دور اندیشی کی کسی سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔
اس کی تمام زندگی یعنی مدت حکمرانی ہم کو جنگ و پیکار کے ہنگاموں سے پر نظر آتی ہے اور کسی کا خیال بھی اس طرف نہیں جا سکتا کہ امیر عبدالرحمن نے اندلس میں کوئی ایسا کام بھی کیا ہو گا جس کی ایک پر امن و امان سلطنت کے سلطان سے توقع ہو سکتی ہے، مگر جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ امیر عبدالرحمن نے اندلس میں علوم و فنون کے رواج دینے کی کوشش میں کامیابی حاصل کی اور اس ملک کے اندر اپنے خاندان کی حکومت کو مستقل بنانے کے لیے علم کے رواج دینے اور تمام ملک میں مدارس قائم کرنے کو سب سے زیادہ ضروری چیز سمجھا تو انسان حیران رہ جاتا ہے اور اس مدبر و مآل اندیش شخص کی فہم و فراست پر عش عش کرنے لگتا ہے۔
امیر عبدالرحمن نے شہر قرطبہ اور اکثر شہروں کی شہر پناہیں تعمیر کرائیں ، اندلس کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں جہاں ضرورتیں تھیں مسجدیں بنوائیں اور شہر قرطبہ میں ایک ایسی مسجد بنوائی، جس کا جواب روئے زمین پر نہیں ہو سکتا تھا اس مسجد کی تعمیر اگرچہ امیر عبدالرحمن اپنی زندگی میں پوری نہیں کر سکا اور ناتمام ہی چھوڑ کر فوت ہوا، مگر اس کی بنیاد جس وسیع پیمانے اور خوب صورت طریقے پر اس نے رکھوائی تھی، ختم ہونے کے بعد اس کے بانی ہی کی علوہمتی اور بلند نظری پر دلیل ہوئی، مسجد قرطبہ کی خوبصورتی اور حسن تدبیر نے بہت سے ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کی نگاہ میں اس مسجد کو خانہ کعبہ کی طرح باعظمت و
|