Maktaba Wahhabi

168 - 868
مصروف رہا اس کا بھی اجمالی ذکر آ چکا ہے، خراسان کی حکومت پر فائز ہو کر وہ مرو میں مقیم تھا کہ ہارون الرشید کا طوس میں انتقال ہو گیا، اس کے بعد قریباً چھ سال تک وہ مرو میں مقیم رہا اور اس نے مرو سے باہر قدم نہیں نکالا۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ اس کی فوجوں نے کابل و قندھار کے باغیوں کو زیر کیا اور اس ملک میں ۲۰۰ھ کے قریب عام طور پر اسلام شائع و مروج ہو گیا۔ اسی زمانے میں تبت کا بادشاہ مسلمان ہوا اور اس نے اپنے سونے چاندی کے بت خلیفہ مامون کے پاس مرو میں بھیج دیے۔ سندھ اس کی حکومت میں شامل تھا۔ اور وہاں دربار خلافت سے عامل مقرر و مامور ہو کر آتے اور حکومت کرتے تھے، لیکن مامون خود کبھی اس طرف نہیں آیا۔ اس نے مرو سے روانہ ہو کر بغداد کا سفر اختیار کیا، اس سفر کے تفصیلی حالات تاریخوں میں درج ہیں ، لیکن سندھ کی طرف یا ہندوستان پر حملہ آور ہونے کا ذکر نہیں ۔ بغداد پہنچ کر عرصہ دراز تک وہ بغداد میں مقیم رہا، آخر ایام حیات میں وہ بغداد سے نکلا تو بلاد روم پر حملہ کرتا رہا شام و مصر بھی گیا۔ اور ان مغربی بلاد کے سفر سے واپسی میں فوت ہوا۔ سمجھ میں نہیں آتا اور عقل کسی طرح تسلیم نہیں کر سکتی کہ مامون الرشید کی زندگی میں آخر وہ کون سا زمانہ ہے جس میں حملات ہند کو درج کیا جائے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی گورنر سندھ نے کبھی کوئی دستہ فوج راجپوتانہ کے زمینداروں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا ہو، مگر یہ ایسی بے حقیقت اور ناقابل تذکرہ مہم ہو گی کہ اس کا ذکر کرنا کسی نے بھی ضروری نہ سمجھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ عامل سندھ کی بھیجی ہوئی اس فوج نے چونکہ باپا سے شکست کھائی۔ لہٰذا مسلمانوں نے اس کا ذکر نہیں کیا، مگر ایسا کہنے میں معترض کی پست ہمتی اور بد دیانتی کا پردہ فاش ہو جاتا ہے کیونکہ وہ خود تاریخ نویسی اور واقعہ نگاری میں ایسے دروغ و کذب کو جائز سمجھتا ہے ورنہ مسلمان مؤرخوں نے مامون کی فوجوں کے شکست کھانے اس کے سپہ سالاروں کے ناکام رہنے کو کہیں بھی نہیں چھپایا حتیٰ کہ قوم زط کی غارت گری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس طعنہ کو بھی درج کر دیا جو نصر بن شیث نے دیا تھا کہ زط کے چند مینڈکوں پر فتح نہ پا سکا۔ بھلا ان مؤرخین کو اگر وہ مامون کی حمایت و طرف داری میں ایسی ہی مجرمانہ حقیقت پوشی پر اتر آئے تھے تو زط کا تذکرہ بڑی آسانی سے ہضم کر سکتے تھے، کیونکہ چند ہی سال کے بعد یہ قوم رومیوں کی بدولت صفحۂ ہستی سے فنا ہو گئی تھی۔ [1]
Flag Counter