تھا، لیکن طرابزون کو انہوں نے اس کے حال پر قائم رہنے دیا تھا جو ان کے مقبوضہ علاقے کی شمالی و مشرقی سرحد تھی، اب فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان فاتح نے ضروری سمجھا کہ ایشیائے کوچک سے اس عیسائی حکومت کو بھی مٹائے، کیونکہ فتح قسطنطنیہ کا واقعہ ایسا نہیں تھا کہ اس کا اثر طرابزون کے عیسائی فرماں روا کے دل پر نہ ہوا ہو جو قیصر قسطنطین کا رشتہ دار اور اس سے کامل ہمدردی رکھتا تھا، طرابزون کا یہ عیسائی فرماں روا اس لیے اور بھی زیادہ مخدوش ہو گیا تھا کہ وہ ایران کے ترکمان بادشاہ حسن طویل کا خسر تھا۔ حسن طویل نے تمام ملک ایران اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا تھا اور وہ ایک طاقتور بادشاہ سمجھا جاتا تھا، لہٰذا ایران کی ترکمان سلطنت ایشیائے کوچک کی عثمانیہ سلطنت کے لیے موجب خطرہ بن سکتی تھی اور طرابزون کی عیسائی ریاست کو کافی موقع میسر تھا کہ وہ عثمانی سلطان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی تدابیر سوچے۔
سلطان فاتح عیسائی قیصر کی ریشہ دوانیوں سے واقف تھا اس لیے اس نے یہی مناسب سمجھا کہ اس ناسور کو پہلے ہی شگاف دے دیا جائے اور جو کچھ ہونا ہو وہ ابھی ہو جائے چنانچہ اس نے یونان و وینس سے فارغ ہو کر ۸۶۰ھ میں طرابزون پر حملہ کیا اور اس ریاست کو فتح کر کے اپنے قلمرو میں شامل کر لیا، طرابزون کی ریاست اگرچہ خود مختار تھی، لیکن وہ سلطنت ایران کا ایک حصہ سمجھی جاتی تھی، اس لیے ایران کے بادشاہ حسن طویل کو طرابزون کا سلطنت عثمانیہ میں شامل ہو جانا سخت ناگوار گزرا، مگر چوں کہ سلطان فاتح نے طرابزون کی عیسائی ریاست کو اپنی حکومت میں شامل کر کے حسن طویل شاہ ایران کی حدود میں کوئی مداخلت نہیں کی اس لیے اس وقت سلطنت ایران سے کوئی جھگڑا نہ ہوا مگر بعد میں دلوں کی کدورت کا اظہار تیرو شمشیر کے ذریعہ ہوا۔
بہر حال یونان اور ایشیائے کوچک کی طرف سے فارغ ہو کر سلطان فاتح ۸۶۰ھ میں قسطنطنیہ واپس آیا اور یہاں آتے ہی سرویا اور اس کے بعد بوسینیا کی طرف متوجہ ہوا یہ علاقے پہلے بھی حکومت عثمانیہ میں شامل رہ چکے تھے، لیکن آج کل ان کے باج گزار فرماں رواؤں سے علامات سرکشی ظاہر ہونے لگے تھے، لہٰذا سلطان فاتح نے ان روز کے جھگڑوں کا فیصلہ ہی کر دینا مناسب خیال کیا، چنانچہ سرویا اور بوسینیا کو فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کے صوبے قرار دے کر وہاں اپنی طرف سے عامل مقرر کر دیئے، چوں کہ ہنی داس بادشاہ ہنگری کے ساتھ معاہدہ صلح کی میعاد ختم ہو چکی تھی اور وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف اور یورپ کی دوسری عیسائی طاقتوں سے امداد طلب کر چکا تھا اس لیے سلطان فاتح نے ضروری سمجھا کہ ہنگری پر خود ہی حملہ آور ہو۔ چنانچہ ۸۶۱ھ مطابق جولائی ۱۴۵۶ء میں عثمانی فوجیں ہنگری کی جانب بڑھیں ، فتح قسطنطنیہ کے بعد تمام عیسائی سلاطین اور عالم عیسائیت سلطنت عثمانیہ کی
|