تھے، ادھر عقیدت مند عیسائیوں کی فوج تھی جن کو لڑائی پر ابھارنے اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ترغیب دینے کے لیے تمام بڑے بڑے نامور پادری اور بشپ موجود تھے، اس معرکے میں طارق کی مٹھی بھر فوج جو اپنے حریف کی فوج گراں کا بمشکل آٹھواں حصہ تھی اگر شکست کھا جاتی، تو یہ معرکہ بہت ہی معمولی اور ناقابل تذکرہ معرکہ ہوتا، لیکن چونکہ بارہ ہزار مسلمانوں نے ایک لاکھ با سازوسامان عیسائیوں کے لشکر جرار کو شکست فاش دی، لہٰذا یہ لڑائی دنیا کی عظیم الشان لڑائیوں میں شمار ہوتی ہے، ایسے عظیم الشان معرکہ کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت ہی کم اور صرف چند دستیاب ہو سکتی ہیں ، ایک ہفتہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن رہیں ، طارق نے جس وقت لرزیق شہنشاہ ہسپانیہ کے لشکر عظیم کے مقابل اپنی مٹھی بھر فوج کی صفیں درست کیں تو اپنے ہمراہیوں کو مخاطب کر کے ایک ولولہ انگیز تقریر کی، جو ایمان باللہ کو استوار اور پائے استقلال کو مضبوط کرنے والی تھی، طارق کی اس تقریر نے مسلمان بہادروں کے دوران خون کو بڑھا دیا اور شوق شہادت نے الفت دنیا اور محبت زن و فرزند کو دلوں سے مٹا دیا، اس کے بعد معرکۂ کارزار گرم ہوا، ادھر سے ہائے وہو کا شوروغل تھا، ادھر سے تکبیر کی آواز تھی جو دشمنوں کے دلوں کو دہلاتی اور مسلمانوں کے دلوں کو بڑھاتی تھی ؎
بہ پیکار کاریکہ تکبیر کرد
نہ شمشیر کرد و نئے تیرکرد
عیسائی لشکر کا بڑا حصہ زرہ پوش سواروں پر مشتمل تھا، لیکن اسلامی فوج سب پیدل تھی، عیسائی سواروں کی صفیں طوفانی سمندر کی لہروں کی طرح جب حملہ آور ہوئی ہیں تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ فیل پیکر گھوڑوں اور دیو نژاد سواروں کے پرے مسلمانوں کو کچلتے اور ان کی لاشوں کو سموں کی ضربوں سے قیمہ بناتے ہوئے گزر جائیں گے اور نیزہ و شمشیر کے استعمال کا موقع نہ پائیں گے، لیکن جس وقت یہ آہن پوش متلاطم سمندر جمعیت اسلامی کے پہاڑ سے ٹکرایا ہے تو معلوم ہوا کہ بھیڑوں کی کثرت، شیروں کی قلت پر غلبہ پانے کے لیے حملہ آور ہوئی تھی، اسلامی تلواروں کی بجلیاں چمکیں اور عیسائی افواج کی گھٹائیں کچھ تو خاک و خون میں لتھڑی ہوئی لاشوں کی شکل میں تبدیل ہو گئیں اور اکثر لکہ ہائے ابر کی طرح پاش پاش ہو کر متحرک و مفرور نظر آنے لگیں ، تکبیر کے پر ہیبت نعرے دم بدم میدان کے شور و غل پر غالب ہوتے جاتے تھے کہ شمشیر زنوں کی تیز دستی اور نیزہ بازوں کی چستی نے اس معرکہ کی عظمت کو مورخین عالم کے لیے ایسے بلند مقام پر پہنچا دیا کہ ربع مسکون کے ہر حصے اور دنیا کی ہر ایک قوم نے حیرت کی نگاہوں سے اسلامی جوش کے اس نظارے کو دیکھا۔
|