جہاد کرنے اور کفار سے بذات خود لڑنے میں یہ خلیفہ کسی سے کم نہ تھا اور اس کی فوجی کارروائیاں بہت ہی عظیم الشان تھیں ۔ ساتھ ہی جب خلیفہ کے رفاہ رعایا، خدمت علوم و فنون، اصلاح معاشرت، ترقی، تمدن، شوق عمارات، ترقیٔ مال و دولت، ترقیٔ زراعت وغیرہ کارناموں پر غور کیا جاتا ہے تو اس کا مرتبہ ہی بلند ثابت ہوتا ہے اور عبدالرحمن ثالث عبدالرحمن اول سے ہرگز کم ثابت نہیں ہوتا۔
اس خلیفہ کے زمانے میں نہ صرف قرطبہ بلکہ تمام ملک اندلس جنت کا نمونہ بن گیا تھا۔ کہیں چپہ بھر زمین ایسی نہ تھی جس میں کاشت نہ ہوتی ہو۔ خوبصورت باغات کی افراط و کثرت سے تمام ملک گلزار نظر آتا تھا۔ کوئی شہر و قصبہ اور گاؤں ایسا نہ تھا جس میں خوبصورت اور سربفلک عمارات کی کثرت نہ ہو۔ وہ اندلس جو اس خلیفہ کی تخت نشینی سے پہلے بد امنی اور فتنہ و فساد کا گھر بنا ہوا تھا۔ اس کے عہد سلطنت میں امن و امان اور فارغ البالی کا مسکن بن گیا تھا۔ قرطبہ اور دوسرے شہروں کی عمارات اور رونق و سلیقہ شعاری بغداد و دمشق وغیرہ سے بہ درجہا بڑھ چڑھ کر تھی۔ اندلس کی آبادی کے مقابلے میں تمام براعظم یورپ ایک بیابان نظر آتا تھا۔ جہاں تہذیب و شائستگی کا نام و نشان نہ تھا۔ یورپ کے تمام بادشاہوں کی آمدنی مل کر بھی تنہا خلیفہ عبدالرحمن ثالث کی آمدنی کے برابر نہ تھی۔ خلیفہ عبدالرحمن ثالث کی باقاعدہ فوج جن کے نام رجسٹروں میں درج تھے ڈیڑھ لاکھ تھی۔ مگر بے قاعدہ فوج یعنی ضرورت کے وقت رضاکاروں وغیرہ کی تعداد جو فراہم ہو سکتی تھی اس کا کوئی شمار نہ تھا۔ بارہ ہزار آدمیوں کی فوج جن میں آٹھ ہزار سوار اور چار ہزار پیدل تھے خلیفہ کی محافظ تن فوج تھی۔
تمام جزیرہ نمائے اندلس میں سڑکوں اور شاہراہوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔ مسافروں کی حفاظت کے لیے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں قائم تھیں اور سپاہی گشت کرتے اور پہرہ دیتے رہتے تھے۔ ڈاک کا انتظام بذریعہ قاصدوں کے تھا جو ڈاک لے کر گھوڑوں کو سر پٹ دوڑاتے ہوئے جاتے تھے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ خبر اتنی جلدی پہنچ جاتی تھی کہ دوسرے ملکوں کے لوگ اس کو جادو سمجھتے تھے۔ لاتعداد بروج پہرہ چوکی کے لیے بنے ہوتے تھے۔ یہ بروج ساحل بحر پر بھی بنے ہوئے تھے۔ ان برجوں کی چوٹیوں پر سے دارالخلافہ میں جہازوں کی نقل و حرکت کی خبر بلا توقف پہنچ جاتی تھی۔ بیت المال سے ایک بہت بڑی رقم ایسی عمارتوں کے لیے ہمیشہ لی جاتی تھی۔ جو رفاہ عام کے لیے بنوائی جاتی تھیں ان عمارتوں کے بنوانے سے یہ بھی غرض تھی کہ کاریگروں اور مزدوروں کے لیے کام ہمیشہ مہیا رہے۔ اس کا یہ اثر ہے کہ اس تمام ملک میں جو مسلمانوں کے قبضہ میں رہ چکا ہے غیر معمولی تعداد قلعوں اور پلوں کی پائی جاتی ہے۔ بیمار اور محتاج آدمیوں کے لیے سرکاری مکانات تھے۔ وہاں سرکاری خرچ سے ان کی ہر قسم
|