کی خبر گیری کی جاتی تھی۔ تمام ممالک محروسہ میں دارالیتامیٰ قائم تھے، ان میں یتیموں کی پرورش اور تعلیم کا انتظام خلیفہ کے صرف خاص سے ہوتا تھا۔
قرطبہ کی آبادی دس لاکھ تھی۔ سڑکیں نہایت صاف و پختہ، مکانات عموماً سنگ مر مر کے اور نہایت خوبصورت، پانی کے نکاس کی موریوں کا نہایت عمدہ اور قابل تعریف انتظام تھا۔ صفائی کے لیے ایک محکمہ قائم تھا جو ہمہ اوقات شہر کی صفائی کی نگرانی میں مصروف تھا۔ جا بجا شہر کے اندر بھی نفیس و دل کشا باغیچے تھے اور نواح شہر میں تو ایسے جنت النظیر باغیچوں کی بڑی ہی کثرت تھی۔ شہر میں مکانات کی تعداد ایک لاکھ تیرہ ہزار تھی۔ ان میں وزراء و امراء اور خلیفہ کے محلات و قصور شامل نہیں ہیں ۔ اسی ہزار چار سو دوکانیں ، سات سو مسجدیں ، نو سو حمام اور چار ہزار تین وہ مکانات تھے، جن میں مال تجارت رکھا رہتا تھا۔ ان کو گودام کہنا چاہیے۔ دنیا کے ہر ملک و شہر کے آدمی۔ ہر ملک کا لباس اور ہر ملک و سلطنت کے سکے قرطبہ میں نظر آتے تھے۔ اس شہر کا طول چوبیس میل اور عرض چھ میل تھا جو وادی الکبیر کے کنارے کنارے پھیلا چلا گیا تھا۔ خاص شہر جس کے گرد پختہ فصیل تھی، چودہ میل کے محیط میں تھا۔ رات کے وقت قرطبہ کے بازار میں اگر کوئی شخص بخط مستقیم سفر کرے تو دس میل تک وہ بازار کے چراغوں کی روشنی میں چل سکتا تھا۔ روئے زمین کا کوئی شہر قرطبہ کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ دنیا کے کسی شہر میں اس قدر قلمی کتابیں نہیں تھیں جس قدر قرطبہ میں موجود تھیں ۔ پہاڑ کا پانی ڈھائی میل کے فاصلے سے بذریعہ نل شہر کے اندر آتا تھا۔ شہر میں نلوں کا جال پھیلا ہوا تھا۔ ہر مدرسے ہر سرائے اور ہر مسجد کے دروازے پر لازماً نل لگا ہوا تھا۔ باغوں میں اسی نل کے ذریعہ فوارے چھوٹتے تھے۔ شہر کے ساتھ بڑے بڑے دروازے تھے جن کے پھاٹکوں میں تانبا جڑا ہوا تھا۔ شہر پناہ کے اندر شہر پانچ حصوں میں منقسم تھا۔ ہر ایک حصے کی شہر پناہ الگ الگ تھی۔ شہر کے پانچ حصوں میں سے ایک حصہ قصر شاہی تھا۔ اس کا قلعہ الگ تھا اور اراکین سلطنت اسی میں رہتے تھے۔ شہر قرطبہ ہی میں نہیں تمام ملک اندلس میں کوئی فقیر بھیک مانگنے والا نظر نہ آتا تھا۔ سلطان عبدالرحمن ثالث اپنے آخر ایام حکومت میں مدیتۃ الزہرا میں چلا گیا تھا۔ جو قرطبہ کے قریب ایک دوسرا چھوٹا سا شہر بن گیا تھا اور رونق و خوبصورتی میں قرطبہ سے بہت بڑھ چڑھ کر تھا۔ اندلس میں ہر قسم کے میوے بافراط پیدا ہونے لگے تھے اور بازاروں میں بہت ارزاں فروخت ہوتے تھے۔
دارالخلافہ قرطبہ میں بکثرت مدارس اور دارالعلوم جاری تھے۔ جا بجا مشاعرے، مناظرے اور علمی تحقیقات کے جلسے منعقد ہوتے تھے۔ شہزادے، امراء اور خود خلیفہ ان جلسوں کی شرکت اور سر پرستی کرتے۔ علماء کو انعام و وظائف عطا کرتے تھے۔ ہیئت طب، فلسفہ، فقہ، حدیث اور تفسیر کے بے نظیر عالم
|