سے عبدالرحمن کا بیٹا عبداللہ پیدا ہوا تھا۔ طروب کی یہ خواہش تھی کہ سلطان اپنے بعد عبداللہ کو تخت و تاج کا مالک قرار دے، لیکن سلطان کا بیٹا محمد اپنے بھائی عبداللہ سے زیادہ قابل اور مستحق سلطنت تھا۔ طروب نے ایک مرتبہ اس بات کی کوشش کی کہ محمد کو زہر دے کر قتل کرا دیا جائے۔ اس کام کے لیے نصر نامی خواجہ سرا کو راز دار بنایا گیا۔ نصر نے ایک شاہی طبیب کو بڑا بھاری لالچ دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ دوا میں زہر ہلاہل ملا کر محمد کو پلا دے جو ان دنوں اس طبیب کے زیر علاج اور کسی معمولی مرض میں مبتلا تھا۔ شاہی طبیب نے نصر کی اس فرمائش کو منظور کر لیا مگر پوشیدہ طور پر سلطان کو بھی اطلاع دے دی کہ آج دوا کا پیالہ شہزادے کے لیے آئے گا اس میں زہر ہلاہل شامل ہو گا۔ چنانچہ زہر آلود پیالہ آیا۔ بادشاہ نے نصر سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس دوا کو آج تم ہی پی جاؤ۔ نصر کو دوا پینی پڑی اور پیتے ہی فوراً مر گیا۔ جو گڑھا اس نے شہزادہ محمد کے لیے کھودا تھا خود ہی اس میں گرا۔ اس کے چند روز بعد ہی سلطان عبدالرحمن کا انتقال ہوا۔ اور شاہی محافظ فوج کی مدد سے جو سلطان حکم کے زمانے سے قائم تھی شہزادہ محمد تخت نشین ہوا اور عبداللہ مع اپنی والدہ طروب کے ناکام رہا۔
عبدالرحمن بن معاویہ یعنی عبدالرحمن اول یا عبدالرحمن الداخل کے زمانے میں محاصل ملکی کی تعداد تین لاکھ دینار تھی۔ سلطان حکم کے زمانے میں یہ تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی عبدالرحمن ثانی کے زمانے میں محاصل ملکی جو خزانہ شاہی میں داخل ہوتے تھے۔ دس لاکھ دینار سالانہ تھے۔ کل آمدنی کے تین حصے کیے جاتے تھے، ایک حصہ فوج کی تنخواہوں میں ۔ ایک حصہ حکام اور عہدہ داران سلطنت کی تنخواہوں میں صرف ہوتا تھا۔ ایک حصہ خزانہ عامرہ میں غیر مترقبہ ضرورتوں کے لیے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اسی میں سے رفاہ رعایا کے کام اور تعمیرات کے مصارف پورے کیے جاتے تھے۔ عبدالرحمن ثانی نے بعض تجارتی سامان اور دوسری چیزوں پر محصول لگا کر آمدنی کو بڑھایا تھا۔ اس لیے اس کے خلاف ملک میں مخالفت کا جذبہ بآسانی پیدا کیا جا سکا۔
بیان کیا جاتا ہے کہ عبدالرحمن کی اولاد سیکڑوں تک پہنچ گئی تھی، یعنی سو سے زیادہ بیٹے اور پچاس کے قریب بیٹیاں تھیں ۔ عبدالرحمن بہت قیافہ شناس شخص تھا۔ اس کو اس کی رعایا نے المظفر کا خطاب دیا تھا اس کا سجع اور نقش خاتم ’’راضی برضا‘‘ تھا۔ اس کا رنگ گندمی تھا، آنکھیں گہری، دراز ریش لحیم شحیم آدمی تھا، داڑھی میں حنا کا خضاب کرتا تھا۔ وفات کے وقت ۴۵ لڑکے زندہ تھے۔
عبدالرحمن ثانی کے عہد حکومت میں عیسائیوں کو سلطنت کے بڑے بڑے ذمہ داری کے عہدے دیئے جاتے تھے اور عیسائی جو عام طور پر عربی زبان بولتے اور لکھتے تھے دفتروں پر قابض و متصرف ہو گئے تھے۔
|