تھے۔ لہٰذا ۲۱۳ھ میں سلطان عبدالرحمن نے حکم دیا کہ شہر مریدہ کی منہدم شدہ فصیل کے پتھروں کو دریا میں ڈال دو۔ جب اس حکم کی تعمیل عامل مریدہ نے کرنی چاہی تو وہاں کے لوگ پھر باغی ہو گئے۔ انہوں نے اس مرتبہ پھر شہر پر قبضہ کر لیا اور عامل کو وہاں سے خارج ہونا پڑا۔ اہل شہر نے شہر کی منہدم شدہ فصیل کو پھر تعمیر کر لیا اور مقابلہ کے لیے مضبوط ہو بیٹھے۔ یہ سن کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ بغاوت صرف عیسائیوں تک محدود نہیں تھی بلکہ بڑا حصہ مسلمانوں کا اس میں شریک تھا اور باغیوں کی سرداری محمود بن عبدالجبار کے ہاتھ میں تھی۔ یہ مسلمان عیسائیوں کے ترغیب دینے سے کیوں بغاوت پر آمادہ ہو جاتے تھے اس کا سبب آگے بیان ہونے والا ہے۔ بہر حال ۲۱۷ھ تک مریدہ کے مقابل شاہی سپہ سالار مصروف جنگ رہے اور کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
آخر ۲۱۸ھ کے ابتدا میں سلطان عبدالرحمن نے خود مریدہ پر فوج کشی کی مگر اس مرتبہ ابھی شہر فتح نہ ہونے پایا تھا کہ سلطان کو محاصرہ اٹھا کر فوراً کسی ضرورت سے قرطبہ کی جانب واپس آنا پڑا۔ ۲۲۰ھ میں پھر خاص اہتمام سے حملہ کیا گیا اور یہ شہر سات سال تک ملک اندلس کے درمیانی علاقہ میں خود مختار رہنے کے بعد مفتوح ہوا اور سلطان کی طرف سے یہاں عامل مقرر ہوا، اہل مریدہ کی اس بغاوت سے بڑھ کر خطرناک بغاوت اب تک ملک اندلس میں نہ ہوئی تھی۔ چالیس ہزار جنگجو پورے طور پر مسلح اہل شہر کے پاس موجود تھے۔ ان باغیوں کو ہر قسم کی امداد ریاست ایسٹریاس و جلیقیہ سے خفیہ طور پر پہنچ رہی تھی۔ آخر ۲۲۰ھ میں جب یہ شہر فتح ہوا اور اس بغاوت کا خاتمہ ہو گیا تو محمود بن عبدالجبار مریدہ سے فرار ہو کر سیدھا ریاست ایسٹریاس ہی میں پہنچا اور وہاں اس کو ایک قلعہ دار بنا دیا گیا۔ جہاں وہ پانچ سال تک زندہ رہا۔
عیسائیوں کو مسلمانوں کے باغی بنانے میں دو وجہ سے آسانی ہوئی۔ اول تو یہ کہ اندلس میں عیسائی عورتیں عام طور پر مسلمانوں کے گھروں میں تھیں ۔ مسلمان مذہبی آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ان عیسائی بیویوں کو تبدیل مذہب کے لیے مجبور نہیں کرتے تھے۔ شمالی عیسائی ریاستوں کو چھوڑ کر کہ ان عیسائیوں کو مسلمانوں سے عداوت و نفرت تھی باقی تمام اندلس کے عیسائی مسلمانوں کے ساتھ نہایت گہرے اور ہمدرانہ تعلقات رکھتے تھے۔ ان عیسائیوں کے ذریعے شمالی ریاستوں کے عیسائی مسلمانوں میں ہر ایک خیال کی بآسانی اشاعت کر سکتے تھے۔ اس مرتبہ یہ مشہور کیا گیا کہ سلطان عبدالرحمن نے زکٰوۃ کے علاوہ جو کوئی اور ٹیکس لگایا ہے یہ ابتدا ہے اس ظلم و ستم کی جو سلطان اپنی رعایا کے تمام اموال پر قبضہ کرنے کے ذریعہ کرنے والا ہے۔ یہ ایک ایسی بات تھی کہ سب سے پہلے اس پر مسلمانوں ہی کو غصہ آتا تھا۔ بڑھتے بڑھتے اس معمولی سی بات نے وہ صورت اختیار کر لی جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔
|