لشکریوں کو بطور انعام دینے کا وعدہ کیا اور کوفہ و سواد پر قبضہ کر کے مدائن کی طرف بڑھا اور لشکر کی آراستگی میں مصروف ہوا، بغداد کی جانب غربی پر عباس بن موسیٰ کو اور جانب شرقی پر اسحق بن موسیٰ کو مامور کیا۔
حمید بن عبدالحمید حسن بن سہل کی طرف سے قصر ابن ہبیرہ میں مقیم تھا، وہ وہاں سے حسن بن سہل کے پاس گیا اور ابراہیم نے عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد کو قصر ابن ہبیرہ پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا۔ چنانچہ عیسیٰ بن محمد نے قصر ابن ہبیرہ پر قبضہ کر کے حمید کے لشکر گاہ کو لوٹ لیا۔
حسن بن سہل نے عباس بن موسیٰ کاظم برادر علی رضا کو سند گورنری عطا کر کے کوفہ کی جانب روانہ کیا۔ عباس بن موسیٰ کاظم نے کوفہ میں پہنچ کر اعلان کیا کہ میرا بھائی علی رضا مامون کے بعد تخت خلافت کا مالک ہو گا، اس لیے اب تم لوگوں کو کہ محبان اہل بیت ہو ابراہیم بن مہدی کی خلافت تسلیم نہیں کرنی چاہیے اور خلافت مامون الرشید کے خلاف کوئی حرکت مناسب نہیں ہے۔ اہل کوفہ نے عباس بن موسیٰ کاظم کی گورنری کو تسلیم کر لیا اور غالی شیعوں نے یہ کہہ کر کہ ہم تمہارے بھائی علی رضا کے معاون ہیں ، مامون سے ہم کو کوئی واسطہ نہیں ، بے تعلقی اور خاموشی اختیار کی۔
ابراہیم بن مہدی نے عباس بن موسیٰ کاظم کے مقابلہ پر سعید اور ابوالبط اپنے دو سپہ سالاروں کو مامور کیا۔ عباس نے علی بن محمد بن جعفر اپنے چچا زاد بھائی کو ان کے مقابلہ پر بھیجا۔ دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا اور علی بن محمد کو شکست حاصل ہوئی۔ سعید نے حیرہ میں قیام کیا اور فوج کو کوفہ کی طرف بڑھایا۔ اہل کوفہ اور عباس نے مقابلہ کیا۔ متعدد لڑائیاں ہوئیں ، آخر اہل کوفہ اور عباس نے امان طلب کی۔ عباس بن موسیٰ کاظم مکان سے باہر آئے اور فتح مند لشکر کوفہ میں داخل ہونے لگا۔ اسی اثناء میں عباس کے ہمراہیوں کو پھر کچھ جوش آیا اور لڑائی پر مستعد ہو گئے۔ سعید کے لشکر نے عباس کے ہمراہیوں کو پھر شکست دی اور کوفہ پر قبضہ کر کے عباس کو قید کر لیا۔ سعید یہ خبر سن کر خود حیرہ سے کوفہ میں آیا اور یہ تحقیق کر کے کہ عباس نے امان طلب کرنے کے بعد خود کوئی بدعہدی نہیں کی عباس کو آزاد کر دیا اور کوفہ میں بعض لوگوں کو قتل کرایا اور کوفہ میں عامل مقرر کر کے بغداد کی طرف چلا آیا۔
حسن بن سہل نے حمید بن عبدالحمید کو کوفہ کی طرف روانہ کیا۔ عامل کوفہ بلا مقابلہ کوفہ چھوڑ کر بھاگ گیا، ابراہیم بن مہدی نے عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد کو حسن بن سہل پر حملہ کرنے کے لیے واسط کی طرف روانہ کیا۔ کیونکہ حسن بن سہل ان دنوں واسط میں مقیم تھا۔ عیسیٰ بن محمد کو حسن بن سہل نے شکست دے کر بغداد کی طرف بھگا دیا۔ غرض اسی قسم کے ہنگاموں میں ۲۰۲ھ ختم ہو گیا اور ۲۰۳ھ شروع ہوا۔
ابراہیم نے اپنی خلافت کے مستحکم و مضبوط بنانے کی امکانی کوشش میں کمی نہیں کی، مگر ۲۰۳ھ کی
|