توجہ اور طاقت کے تقسیم کرنے کے لیے ساحل شام کے عیسائی علاقوں پر حملہ آوری شروع کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی یعنی صلیبی جنگ جو پچاس دن کے محاصرے کے بعد دمیاط کو چھوڑ کر اپنے شہروں کی طرف واپس آئے تو ان کو بھی سلطان نورالدین کے حملوں سے خراب و ویران پایا۔ اس کے بعد سلطان صلاح الدین نے اپنے باپ نجم الدین ایوب کو ملک شام سے مصر بلوایا۔ بادشاہ عاضد خود نجم الدین ایوب سے ملنے آیا اور بہت کچھ تواضح و مدارات کی۔ بادشاہ عاضد ہمیشہ سلطان صلاح الدین ایوب کے کاموں کا مداح رہتا تھا اور خود اس نے امور سلطنت سے بے تعلقی اختیار کر لی تھی۔ مصر کے شیعوں کو صلاح الدین کا اقتدار و اعزاز اور اختیار و طاقت بے حد گراں گذرتی تھی۔ صلاح الدین کی وجہ سے مصر میں دم بدم شیعیت کو تنزل اور سنی مذہب کو ترقی تھی۔ آخر عمارہ یمنی، زبیدی، عویرش قاضی القضاۃ معزول، عبدالصمد، کاتب، موتمن الخلافتہ سردار خدام قصر سلطانی وغیرہ نے مل کر ایک سازش کی اور یہ رائے قرار پائی کہ مصر کے ملک کو عیسائیوں کے سپرد کر دیا جائے اور عیسائی سفیر کو بلوا کر بادشاہ عاضد سے اس کی خفیہ ملاقات کرائی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایک طرف عاضد کو ہموار کرنے کی کوشش کی دوسری طرف عیسائیوں سے خط و کتابت کر کے ان کے سفیر کو پوشیدہ طور پر بلوایا اتفاقاً ان لوگوں کا ایک خط جو انہوں نے عیسائی بادشاہ کے پاس روانہ کیا تھا راستے میں پکڑا گیا اور صلاح الدین کی خدمت میں پیش ہوا۔ صلاح الدین نے مجرموں کا نہایت احتیاط کے ساتھ پتہ لگایا اور سب کو گرفتار کر کے دربار عام میں ان کے اظہار قلم بند کیے۔ جب وہ سب مجرم ثابت ہوئے تو ان کو قتل کیا اور بہاؤالدین قراش کو محل سرائے سلطانی کا داروغہ مقرر کیا۔
سلطان العادل یعنی سلطان نورالدین محمود پہلے سے صلاح الدین ایوب کو لکھتے رہتے تھے کہ تم مصر میں خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ پڑھواؤ، مگر صلاح الدین یہ معذرت کر دیا کرتا تھا کہ اگر عاضد عبیدی کا نام خطبہ سے نکال دیا گیا تو اندیشہ ہے کہ مصر میں سخت فساد اور فتنہ برپا ہو جائے۔ صلاح الدین کا یہ اندیشہ غیر معقول نہ تھا، کیونکہ سوڈانیوں کی ایک بڑی تعداد مصر میں موجود تھی جو ترکوں کی مخالفت اور شیعہ سازشی لوگوں کی حمایت پر مستعدی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ مذکورہ سازش کے شرکاء کو جب صلاح الدین نے قتل کیا تو ان سوڈانیوں نے جو پچاس ہزار کی تعداد میں تھے صلاح الدین اور ترکوں کی فوج کے خلاف ہتھیار سنبھال لیے۔ قصر سلطنت اور قصر وزارت کے درمیان ترکوں اور سوڈانیوں میں جنگ عظیم برپا ہوئی۔ ترک غالب ہوئے سوڈانی بہت سے مقتول اور باقی مفرور ہوئے۔ ان کے گھروں کو ترکوں نے لوٹ لیا۔ صلاح الدین نے سوڈانیوں کو امن عطا کر کے ان کے گھروں میں آباد کرا دیا۔ اس طرح سوڈانیوں کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اب سلطان العادل نے پھر صلاح الدین کو لکھا کہ عاضد کے نام کا خطبہ موقوف کر کے
|