عاقلانہ تدبیر سمجھی جاتی، مگر معتصم کے جانشینوں کی کمزوری اور عربی عنصر کے ضعیف تر ہو جانے اور سامرہ کے دارالسلطنت ہونے سے ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا اور معتصم کی جانشینوں کی کمزوری و نالائقی کا کوئی علاج کسی سے ممکن نہ ہوا، ترک ایک خالص فوجی قوم تھی جس کے پاس دماغ نہ تھا، لہٰذا وہ نہ تو اپنی حکومت و سلطنت قائم کر سکے، نہ علویوں کی خلافت قائم کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ علوی لوگ اب تھک کر اور مایوس ہو کر بیٹھ چکے تھے اور بظاہر کسی ایسے ہی عظیم الشان خطرے کا کوئی اندیشہ خلافت عباسیہ کے لیے باقی نہ رہا تھا۔
جب متعصم کے بعد خود دارالخلافہ میں ہنگاموں اور بد تمیزیوں کا طوفان برپا ہوا تو مرکز خلافت کی اس حالت کا اثر تمام صوبوں پر ہوا اور جہاں جو عامل یا والی تھا وہ اپنی خود مختاری اور جدا گانہ سلطنت قائم کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہو گیا۔
اندلس، مراکش اور افریقہ کی مثالیں ان کے سامنے موجود تھیں ۔ قلب کے ماؤف ہوتے ہی تمام اعضاء کا دوران خون بند ہو گیا اور ان صوبہ داروں اور عاملوں اور عاملوں کی خود مختاری و افراتفری دیکھ کر علوی ،خارجی، زنگی، قرمطی وغیرہ بھی قسمت آزمائی کے لیے کھڑے ہو گئے، اب وہ حالت پیدا ہوگئی کہ منصور و ہارون و مامون بھی اگر ہوتے تو شاید کامیاب نہ ہو سکتے تھے۔ متوکل کا قتل خلافت عباسیہ کے لیے نہایت منحوس واقعہ تھا۔ متوکل کے بعد ہی اگر موفق تحت نشیں ہو جاتا تو ممکن تھا کہ وہ حالات کو سنبھال لیتا، مگر موفق کو بحیثیت خلیفہ کام کرنے کا موقع نہ ملا، اور اس کے بیٹے معتضد کو جو اپنے باپ ہی کی طرح ذی حوصلہ و باہمت تھا اس وقت خلافت ملی جب مرض لا علاج ہو چکا تھا۔
|