خاندان بنو امیہ کی سب سے بڑی خطایہ ہے کہ اس نے ولی عہدی کو وراثت میں داخل کر کے حکومت اسلامی کی بربادی کا سامان کیا اور اس رسم بد کا مسلمانوں کو عادی بنایا، خاندان بنو عباس کی خطا بھی ان سے کسی طرح کم نہیں ہے کہ انہوں نے بنو امیہ کی ہر ایک چیز کو مٹایا اور ان کا یادگاروں کو فنا کیا مگر اس رسم بد کی خوب حفاظت کی اور مسلمانوں کی بربادی کے اس سامان کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے رہے۔
دوسری غلطی ان کہ یہ تھی کہ شروع سے اہل عرب کے مخالف اور نو مسلم ایرانیوں کے ہمدرد رہے، سفاح سے لے کر مامون الرشید تک بجز ایک مہدی کے ہر ایک خلیفہ نے عربوں کی طاقت کو گھٹایا اور مجوسی النسل لوگوں کو ابھارا اور آگے بڑھایا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاندان بنو عباس کو بنو امیہ کے فتوحات کے دائرہ سے آگے قدم رکھنا نصیب نہ ہوا اور دم بدم ان کی حکومت و سلطنت کا رقبہ محدود ہی ہوتا چلا گیا۔
اسلام کی حقیقی شان اور اسلامی اخلاق پر مجوسیت کا ایک ہلکا سا غبار چھا گیا، یہی مجوسی النسل لوگ خلفاء عباسیہ کے لیے باعث مشکلات رہے، مگر ذی حوصلہ عباسی خلفاء ان مشکلات پر غالب آتے رہے۔
معتصم باللہ نے مجوسیوں کی قابو یافتہ اور زبردست جماعت کے مقابلہ میں ماوراء النہر کے ترکوں کی، جن کا آبائی مذہب تو مجوسیت ہی تھا مگر قوم اور نسل کے کے اعتبار سے جدا اور خراسانیوں کے غیر تھے، ایک نئی جماعت تیار کی۔
معتصم باللہ کی یہ تدبیر ضرور مفید ثابت ہوتی اگر وہ ترکوں کی نئی جماعت کو خراسانیوں سے زیادہ طاقت ورنہ بناتا۔ اور عربوں کو بھی ترقی دے کر ان دونوں جماعتوں کا ہمسر بنا دیتا، مگر عربوں کا تعلق خاندان خلافت سے بدستور کم اور منقطع ہوتا رہا اور معتصم باللہ کا سامرہ یعنی ترکی بستی میں سکونت پذیر ہونا ترکوں کی حد سے زیادہ ترقی کا موجب ہوا۔ معتصم باللہ نے غالباً ترکوں کو اس لیے پسند کیا تھا کہ وہ علویوں کے اثر سے پاک تھے، عربوں سے اسی لیے اس خاندان نے نفرت کی تھی کہ علوی بھی عرب تھے، مگر علویوں کا اثر مجوسی النسل یعنی ایرانیوں پر جن سے بنو عباس نے کام لیا تھا، عربوں کی نسبت بھی زیادہ تھا، اس لیے انہیں مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔
معتصم نے دونوں گروہوں کو چھوڑ کر ایک خالی الذہن تیسرے گروہ کو منتخب کیا، مگر ترک ایرانیوں کی طرح شائستہ اور انتظام سلطنت سے واقف نہ تھے، ان کے لیے ضرورت تھی کہ ایک زبردست اور چوکس ہاتھ ان سے کام لے اور اپنے کام کا بنائے۔
معتصم کے جانشینوں میں اگر ہارون اور مامون کا دل و دماغ رکھنے والے چند شخص ہوتے تو خلافت عباسیہ کی عظمت و شوکت اور بھی ترقی کر جاتی اور معتصم کا سامرہ کو دارالسلطنت بنانا بڑی ہی
|