فساد عظیم کا حال سنا تو اس نے فوراً اعلان جہاد کیا۔ باقاعدہ فوج کے علاوہ بہت سے رضا کار اور غیر مصافی لوگ بھی شوق شہادت میں آ آکر شریک لشکر ہو گئے۔
اس لشکر کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ تھی۔ جس کو ہمراہ لے کر سلطان عبدالرحمن نے قرطبہ سے شمال کی جانب کوچ کیا مگر ان پچاس ہزار سے زیادہ آدمیوں میں بڑا حصہ ان لوگوں کا تھا جو تجربہ کار وستیز آزمودہ نہ تھے۔ جوں جوں سلطانی فوج شمال کی جانب بڑھتی گئی عیسائی فوجیں سمٹ سمٹ کر سمورہ میں جمع ہوتی گئیں ۔ عیسائیوں کو اپنی تعداد اور قوت کی زیادتی کے علاوہ ایک یہ مضبوطی حاصل تھی کہ سمورہ کے گرد سات مضبوط دیواریں شہر پناہ کی تھیں اور ہر دیوار کے بعد ایک نہایت عمیق خندق کھدی ہوئی تھی۔ ان کا سپہ سالار اعظم رذ میر تھا اور امیہ بن اسحق اس کا مشیرو معاون تھا اسلامی فوج نے جا کر معرکہ کارزار گرم کیا۔ عیسائی لشکر نے میدان میں نکل کر مقابلہ کیا۔ ہر ایک میدان جنگ میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی اور عیسائیوں کو پسپا ہونا پڑا۔ کئی روز کی معرکہ آرائی کے بعد عیسائی لشکر سمورہ کی شہر پناہ میں محصور ہو گیا، ۳۰ شوال ۳۲۷ھ کو مسلمان سخت حملہ کر کے دو دیواروں کے اندر گھس گئے تیسری دیوار کو بھی انہوں نے فتح کیا۔ لیکن اس دیوار کے اندر پہنچتے ہی عیسائیوں کے لشکر نے جو کمیں گاہوں میں پوشیدہ تھا نکل کر ہر طرف سے حملہ شروع کر دیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد بوجہ اس کے کہ نہ آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی خندق میں گرگر کر ڈوب گئی۔ غرض مسلمان ایسے تنگ مقام میں اور ایسی بری طرح پھنسے کہ صرف ۴ آدمی زندہ بچ کر باہر نکل سکے اور اپنے بادشاہ عبدالرحمن ثالث کو جو پچاسواں شخص تھا بمشکل اس نرغہ سے بچا کر نکال لائے۔ باقی سب کے سب سمورہ کی خندق میں شہید ہو گئے ان پچاس آدمیوں کے تعاقب میں رذمیر نے ایک رسالہ بھیجنا چاہا تو امیہ بن اسحق نے اس کو یہ کہہ کر روک دیا کہ بہت ممکن ہے کہ اسلامی لشکر کی کوئی بڑی تعداد باہر جھاڑیوں میں چھپی ہوئی موجود ہو اور وہ ہر طرف سے گھیر کر آپ کے لشکر کو تباہ کر دے۔ غرض عبدالرحمن ثالث کو اس لڑائی میں بڑی ناکامی ہوئی اور جب سے مسلمانوں نے اندلس کی سر زمین پر قدم رکھا تھا آج تک کسی معرکہ میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد شہید نہیں ہوئی تھی۔ یہ لڑائی یوم الخندق یا جنگ خندق کے نام سے مشہور ہوئی۔
اس لڑائی کے بعد امیہ بن اسحق کو پچاس ہزار مسلمانوں کی لاشیں دیکھ کر اپنی بداعمالی پر غور کرنے کا موقع ملا اور اس کے ضمیر نے اس کو ملامت کی کہ تو نے مسلمانوں کا اس قدر عظیم الشان کشت و خون کرا کر بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے چنانچہ اس نے سلطان کے پاس ایک درخواست بھیج کر اپنی خطا کی معافی چاہی اور عیسائیوں کا ساتھ چھوڑ کر قرطبہ میں چلا آیا۔ سلطان عبدالرحمن نے قرطبہ میں واپس پہنچ کر
|