سلاطین مصران کو نہ آزادانہ کہیں آنے جانے کی اجازت دیتے تھے نہ کسی شخص کو ان سے ملنے کی اجازت تھی یہ خلفاء اپنے اراکین خاندان کے ساتھ گویا اپنے محدود قصر میں نظر بند رہتے تھے، ان کی حیثیت ایک سیاسی شاہی قیدی کی تھی ان کو خلیفہ کہا جاتا لیکن خلافت اسلامیہ کا مفہوم ان سے اسی قدر بعد رکھتا تھا جس قدر زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے، سلطان سلیم عثمانی نے مصر پر قبضہ کرنے کے بعد مصر کے عباسی خلیفہ محمد نامی پر بھی قبضہ کیا جو خلفائے مصر کے سلسلہ میں اٹھارواں اور آخری خلیفہ تھا، اس خلیفہ کے پاس جو علم اور جبہ بطور نشان خلافت موجود تھا وہ سلطان سلیم نے اس کو رضا مند کر کے لے لیا اور مصر سے چلتے وقت اس آخری عباسی خلیفہ کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا اس عباسی خلیفہ نے سلطان سلیم کو امر خلافت میں اپنا جانشین بنا دیا اور اس طرح ۹۲۲ھ میں عباسیوں کی وہ خلافت جو سفاح سے شروع ہو کر اب آٹھ سو برس کے بعد برائے نام اور اسم بے مسمیٰ ہو کر رہ گئی تھی ختم ہوئی اور خاندان عثمانیہ میں جو اس زمانہ میں سے سب زیادہ حق دار خلافت تھا شروع ہوئی، خاندان عباسیہ میں سینتیس خلیفہ بغداد و عراق میں ہوئے اور اٹھارہ مصر میں ہوئے جن کی کل تعداد پچپن ہوتی ہے۔ خاندان عباسیہ کے سلسلہ پر نظر ڈالتے ہوئے اس وقت ہم بہت دور آگے نکل آئے ہیں اب ہم کو پھر اس سلسلہ کے شروع میں واپس جانا ہے اور داہنی بائیں طرف جن ضروری اور اہم شاخوں کو چھوڑتے چلے آئے ہیں ان کا مطالعہ کیے بغیر ہی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے شاید اس جگہ قارئین کرام کو خلافت عباسیہ کے متعلق کسی تبصرہ اور ریویوں کی توقع ہو لیکن میں کہنے کے قابل باتیں سب کہہ چکا ہوں اور اب اس اثر کو جو اس عظیم الشان خاندان خلافت کا انجام دیکھ لینے کے بعد فطری طور سے قلب پر طاری ہوا ہے ضائع کرنا نہیں چاہتا، ہاں ! اگلے ماب میں بعض ضروری باتیں گوش گزار کر کے اس جلد کو ختم کرتا ہوں ۔ وباللہ التوفیق!!
|