صندوقچہ کے اندر ایک اور صندوقچہ بلور کا تھا۔ جس پر طلائی و نقرئی مینا کار بیل بوٹے منقوش تھے۔ اس کے اندر ایک نہایت خوب صورت ریشمی لفافہ تھا۔ جس کے اندر نہایت خوب صورت آسمانی رنگ کی جھلی پر طلائی حروف میں لکھا ہوا خط رکھا تھا۔ عنوان خط میں خلیفہ عبدالرحمن ناصرلدین اللہ کو نہایت شاندار القاب کے ساتھ مخاطب کیا گیا تھا۔ خلیفہ نے خط پڑھوا کر سنا۔ اس کے بعد محمد بن عبدالبر کی طرف اشارہ کیا کہ وہ حسب حال تقریر کریں ۔ ان فقیہ صاحب کو برجستہ تقریر کرنے میں خاص ملکہ حاصل تھا، مگر اس وقت اس دربار کی عظمت اور مجلس کے رعب کا یہ عالم تھا کہ فقیہ مذکور کھڑے ہوئے اور چند الفاظ ادا کرنے کے بعد بے ہوش ہو کر گر پڑے، ان کے بعد ابو علی اسمٰعیل بن قاسم کھڑے ہوئے اور حمد و نعت کے بعد کوئی لفظ زبان سے نہ نکال سکے یہ معلوم ہوتا تھا کہ فکر و اندیشہ میں مستغرق ہیں ۔ یہ رنگ دیکھ کر منذر بن سعید جو معمولی درجہ کے علماء میں شامل تھے کھڑے ہوئے اور بلاتامل تقریر شروع کر دی۔ یہ تقریر اس قدر لطیف و پرجوش اور حسب موقع تھی کہ بے اختیار تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہوئیں ۔ خلیفہ نے اس حسن خدمت کے صلہ میں منذر بن سعید کو قاضی القضاۃ کے عہدے پر مامور کر دیا۔ معمولی مراسم کے بعد دربار برخاست ہوا سفیروں کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ ٹھہرایا گیا اور بڑی شان دار مہمانی کی گئی۔ چند روز کے بعد قسطنطنیہ کی سفارت کو واپسی کی اجازت دی گئی اور اس کے ساتھ ہی خلیفہ نے ہشام بن ہذیل کو اپنی طرف سے بطور سفیر شاہ قسطنطین کے پاس روانہ کیا اور اس کو ہدایت کر دی کہ قسطنطین سے ایک دوستانہ معاہدہ لکھوا لائے۔ چنانچہ ہشام بن ہذیل کامیابی کے ساتھ ۳۳۸ھ میں شاہ قسطنطنیہ سے ایک دوستانہ عہد نامہ لکھوا کر واپس قرطبہ میں آیا۔ اس کے بعد بادشاہ اٹلی، بادشاہ جرمن، بادشاہ فرانس، بادشاہ صقلیہ کے سفیر یکے بعد دیگرے دربار قرطبہ میں حاضر ہوئے اور اپنے اپنے بادشاہوں کی طرف سے اظہار عقیدت بجا لائے اور محبت و ہمدردی کے تعلقات پیدا کرنے کی درخواست کی اور ہر ایک بادشاہ نے خلیفہ عبدالرحمن ناصر کی چشم عنایت اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے منت و سماجت اور خوشامد میں کوتاہی نہیں کی۔ یورپ کا ہر ایک بادشاہ یہ چاہتا تھا کہ خلیفہ عبدالرحمن میرا حامی و مددگار بن جائے تاکہ میں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ ہو جاؤں ۔
خلیفہ عبدالرحمن نے اپنے بیٹے حکم کو اپنا ولی بنایا تھا۔ دوسرا بیٹا عبداللہ نمار روزہ کی طرف زیادہ مائل اور الزاہد کے نام سے مشہور تھا۔ عبداللہ کو قرطبہ کے ایک فقیہ نے جن کا نام عبدالباری تھا بہکایا اور حکومت کی طمع دلا کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ خلیفہ عبدالرحمن اور حکم کو قتل کرنے کی ایک زبردست کوشش کی جائے۔ چنانچہ فقیہ عبدالباری اور عبداللہ نے مل کر خلیفہ اور ولی عہد کے قتل کرنے کی تیاری کی اس سازش
|