Maktaba Wahhabi

525 - 868
آخری سانس پورے کر رہی تھی۔ مگر اسلامی عظمت و شوکت اپنے معراج کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ منصور اعظم کے فوت ہونے کی خبر قرطبہ میں پہنچی تو ہوا خواہان بنو امیہ کو اس لیے خوشی ہوئی کہ اب ہشام ثانی جو شاہ شطرنج کی حیثیت رکھتا تھا آزادانہ و خود مختارانہ فرماں روائی کر سکے گا۔ چنانچہ بعض خیر خواہوں نے خلیفہ ہشام تک پہنچنے اور یہ خوشخبری سنانے کی کوشش میں کامیابی حاصل کی۔ مگر ہشام نے منصور کے فوت ہونے کی خبر سن کر بے حد رنج و ملال کا اظہار کیا اور منصور کے بڑے بیٹے عبدالملک کے آنے تک کوئی خیال ظاہر نہیں کیا۔ جب عبدالملک شہر سالم میں اپنے باپ کو دفن کرنے کے بعد قرطبہ میں وارد ہوا تو خلیفہ ہشام ثانی نے اس کو فوراً طلب کر کے اپنا وزیراعظم بنایا۔ اور اب منصور کی مانند عبدالملک تمام سلطنت اندلس کے سیاہ و سفید کا مالک و مختار ہوا۔ خلیفہ ہشام نے اس کو سیف الدولہ اور ’’مظفر‘‘ کا خطاب دیا۔ مظفر نے اپنے باپ کی روش پر عمل کیا اور چھ سال حکومت کرنے کے بعد ۳۹۹ھ میں فوت ہوا مظفر نے اپنے عہد حکومت میں آٹھ مرتبہ عیسائی ملکوں پر چڑھائیاں کیں اور ہر مرتبہ فتح مند ہوا اس کے زمانے میں بھی علم و فن کی خوب ترقی رہی اور حکومت اسلامیہ کے اس رعب میں جو منصور کے زمانے میں قائم ہو چکا تھا۔ کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ مظفر کے فوت ہونے پر اس کا بھائی عبدالرحمن بن منصور وزارت عظمیٰ یا تخت سلطانی پر فائز ہوا۔ عبدالرحمن نے اپنا لقب ناصر تجویز کیا۔ ناصر کا بھائی اور اس کا باپ منصور دونوں اگرچہ سلطنت اندلس کے خود مختار فرماں روا تھے مگر وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم یا حاجب السلطنت ہی کہتے رہے۔ عبدالرحمن ناصر نے یہ دیکھ کر کہ اراکین دربار اور سردار ان لشکر اور عمال و حکام سب اسی کے خیر خواہ اور اسی کے باپ کے ترتیب کردہ دوست گرفتہ ہیں بلا خوف و خطر اپنے آپ کو خود مختار بتایا اور خلیفہ ہشام کی ظاہری تعظیم و تکریم میں بھی قصور کرنے لگا۔ اس کے بعد ناصر نے ہشام کو مجبور کیا۔ وہ ناصر کو اپنا ولی عہد خلافت تجویز کرے۔ چنانچہ ہشام نے مجبوراً ایک فرمان کے مضمون پر جو ناصر نے لکھوا کر پیش کیا دستخط کر دیئے اور ممالک محروسہ کے تمام عمال کے نام وہ فرمان بھیجا گیا۔ جس میں لکھا تھا کہ ہمارے بعد عبدالرحمن ناصر کو خلیفہ بنایا جائے اور ہر فرد بشر اس کو ولی عہد خلافت تصور کرے۔ اس فرمان میں ناصر کی عالی نسبی ارکان و اعیان سلطنت نے تائید و تصدیق کی اور اور جامع مسجد قرطبہ میں بھی اس کا اعلان کیا گیا۔ ناصر اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوا۔ مگر یہی سند ولی عہدی اور سلطانی اس کے لیے موجب ہلاکت ثابت ہوئی۔
Flag Counter