وہ کوئی مستقل رائے قائم نہ کرنے پایا تھا کہ اتفاقاً اس کو اپنے راز دار خادم پر کسی وجہ سے غصہ آیا اور اس کو سخت سست کہا، اس خادم نے فوراً ایتاخ کے پاس آکر افشین کے تمام ارادوں کی اطلاع کر دی، ایتاخ اسی وقت اس خادم کو لے کر خلیفہ معتصم کے پاس آیا اور کہا کہ افشین فرار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ معتصم نے اسی وقت افشین کو طلب کیا اور درباری لباس اتروا کر قید خانہ میں بھجوا دیا۔ اور کسی قسم کی کوئی بے تابی ظاہر نہیں کی۔ اس کے بعد خلیفہ معتصم نے فوراً عبداللہ بن طاہر گورنر خراسان کو لکھا کہ تم فوراً افشین کے بیٹے حسن بن افشین کو جو ماوراء النہر کے علاقے کا والی اور اشروسنہ میں مقیم ہے گرفتار کر کے بھیج دو۔ حسن بن افشین اکثر نوح بن اسد والی بخارا کی شکایت کیا کرتا تھا۔
عبداللہ بن طاہر نے حسن بن افشین کو لکھا کہ ہم نے بخارا کی حکومت بھی تم کو سپرد کی تم بخارا میں جا کر اور ہمارا یہ حکم دکھا کر نوح بن اسد سے بخارا کی حکومت کا چارج لے لو۔ حسن بن افشین اس تحریر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور فوراً بخارا کی طرف چل دیا۔ عبداللہ بن طاہر نے نوح بن اسد والی بخارا کو پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ ہم نے اس بہانے سے حسن بن افشین کو تمہارے پاس بھیجا ہے۔ تم اس کو بخارا میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لینا اور گرفتار کر کے ہمارے پاس بھیج دینا۔ چنانچہ اس ترکیب سے حسن بن افشین گرفتار ہو کر مرو میں عبداللہ بن طاہر کے پاس آیا۔
عبداللہ بن طاہر نے اس کو معتصم کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ جب حسن بن افشین گرفتار ہو کر آ گیا تو خلیفہ معتصم نے اپنے وزیراعظم محمد بن عبدالملک، قاضی احمد بن ابی دؤاد، اسحاق بن ابراہیم اور دوسرے اراکین سلطنت کی ایک جماعت مرتب کر کے حکم دیا کہ تم سب مل کر افشین کے معاملہ کی تحقیقات کرو اور وہ جس سزا کا مستحق ثابت ہو وہی سزا اس کو دو۔ اگرچہ خلیفہ معتصم اپنے حکم سے اسے فوراً قتل کرا سکتا تھا، لیکن اس میں اندیشہ تھا کہ کہیں در پردہ بعض سردار اس کے شریک سازش نہ ہوں ۔ لہٰذا اس نے یہ نہایت ہی عاقلانہ روش اختیار کی، اس طرح افشین کے قتل پر فوج میں کسی قسم کا جوش معتصم کے خلاف پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔
معتصم افشین کی بد نیتی سے خوب واقف ہو چکا تھا اور جنگ بابک کے دوران ہی اس کو اس بات کی اطلاع ہو چکی تھی کہ افشین اپنے بیٹے کے پاس جس کو وہ پہلے سے اپنے وطن اشروسنہ کا عامل مقرر کرا چکا تھا شاہی مال و اسباب چرا کر اور چھپا کر بھجوا رہا ہے، لیکن اس وقت افشین ایک ایسے دشمن سے مقابلے پر معرکہ آرا تھا جو بیس سال سے مغلوب نہ ہو سکا تھا۔ لہٰذا معتصم بالکل خاموش رہا۔ جنگ بابک کی کامیابی کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ لہٰذا جنگ بابک کے بعد افشین کو انعام و اکرام سے محروم رکھنا اور اس کی
|