Maktaba Wahhabi

689 - 868
مار کر نہانا گناہ کبیرہ تھا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اوکتائی خان اور چغتائی خان دونوں ہمراہ جا رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان دریا میں نہا رہا ہے۔ چغتائی خان نے فوراً اس کے قتل کا حکم دیا۔ اوکتائی خان نے کہا کہ اس کو گرفتار کر لو اور مجمع عام میں اس کو قتل کیا جائے۔ اوکتائی خان نے چغتائی خان سے جدا ہو کر تنہائی میں اس مسلمان قیدی سے کہا کہ تو یہ کہہ دینا کہ میرے پاس اشرفیوں کی ایک تھیلی تھی اور مجھ کو ڈاکوؤں کے اندیشہ سے اس کے چھپانے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا میں دریا میں اس کو چھپانے کے لیے داخل ہوا تھا۔ جب اس مسلمان کو مجمع عام میں سیاست کے لیے حاضر کیا گیا تو اس نے اپنی بے گناہی کے ثبوت میں وہی بات کہی جو اوکتائی خان نے اس کو سمجھا دی تھی۔ یہ سن کر دریا میں اس مقام پر اشرفیوں کی تھیلی تلاش کرنے کے لیے آدمی بھیجے گئے۔ اوکتائی خان نے پہلے ہی وہاں تھیلی ڈال دی تھی۔ وہ برآمد ہوئی اور مسلمان کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ چنانچہ اس کو وہ اشرفیوں کی تھیلی اور چند اور تھیلیاں بطور انعام دے کر اوکتائی خان نے رہا کر دیا۔ اس طرح جہاں تک اس کو موقع ملتا تھا وہ مسلمانوں کو نفع پہنچاتا تھا، مگر دوسرے مغول مسلمانوں کے دشمن اور ان کو نقصان پہنچانے کے شائق تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص اوکتائی خان کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے رات خواب میں قاآن اعظم چنگیز خان کو دیکھا ہے۔ اس نے مجھ سے فرمایا ہے کہ میرے بیٹے اوکتائی خان سے جا کر میرا یہ پیغام کہو کہ میری خوشی اور خواہش یہ ہے کہ دنیا سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا جائے اور ان کے قتل کرنے میں ہرگز تامل روا نہ رکھا جائے۔ اوکتائی خان نے کہا کہ تو مغلی زبان جانتا ہے اس نے کہا کہ نہیں میں صرف فارسی میں گفتگو کر سکتا ہوں اور فارسی ہی سمجھ سکتا ہوں ۔ اوکتائی خان نے کہا کہ چنگیز خان سوائے مغلی زبان کے اور کوئی زبان نہیں جانتا تھا اور فارسی قطعاً نہیں بول سکتا تھا تو نے اس کے کلام کو کس طرح سمجھا؟ یہ کہہ کر حکم دیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے یہ جھوٹا آدمی ہے اور چنگیز خان پر بہتان باندھتا ہے۔ چنانچہ فوراً اس کو قتل کر دیا گیا۔ اوکتائی خان کی نسبت عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اگرچہ علانیہ مسلمان نہ ہوا تھا، لیکن پوشیدہ طور پر وہ اسلام کو سچا مذہب یقین کر کے مسلمان ہو چکا تھا۔ اس کا دارالسلطنت قراقورم تھا اور تمام دنیا کی لوٹ کا مال قراقورم میں جمع ہو کر زرو جواہر سے خزانہ معمور تھا۔ اوکتائی خان کی سخاوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ خراسان اور شام تک سے لوگ اس کی سخاوت کا شہرہ سن کر قراقورم میں چلے آتے تھے اور مالا مال ہو کر واپس جاتے تھے۔ باپ نے جس طرح ظلم و خونریزی کے ذریعہ دولت جمع کی تھی بیٹے نے اسی طرح محبت و شفقت اور خدا ترسی کی راہ سے اس کو لوگوں میں تقسیم کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی زیادتی اور
Flag Counter