Maktaba Wahhabi

862 - 868
میدان ہمارے خیموں سے پٹ جائیں گے اور ہم اپنی شجاعت کے عجیب و غریب تماشے تجھے دکھائیں گے، اس وقت دنیا دیکھ لے گی کہ اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑا منصف ہے کیا فیصلہ صادر فرماتا ہے۔ والسلام علیٰ من اتبع الھدی۔ جیسا کہ سلطان سلیم کے اس خط میں اشارہ موجود ہے شاہ اسماعیل نے یہ بھی سخت نامعقول حرکت کی تھی، کہ اپنی رعایا کے تمام سنی لوگوں کے مقبرے اور مسجدیں گرا کرسنیوں کو حد سے زیادہ ذلیل اور تنگ کر رکھا تھا، خود اسماعیل کے باپ دادا شیعہ نہ تھے بلکہ وہ عثمانیوں کی طرح سنت جماعت طریقہ پر عامل اور صوفی لوگ تھے، شیخ جنید کے زمانہ سے جب کہ جنگی کارروائیوں کا سلسلہ اس خاندان نے شروع کیا تو لوگوں کو محبت اہل بیت کی ترغیب دینی شروع کی، کیونکہ اس طرح ان کو کامیابی کی زیادہ توقع تھی یہاں تک کہ وہ رفتہ رفتہ وہ بہت جلد اسی شیعہ مسلک پر سیاسی اغراض کی وجہ سے قائم ہو گئے جو ان سے پہلے شیعوں نے اپنا دستور العمل بنایا تھا، اسماعیل صفوی نے اس معاملہ میں سب سے زیادہ غلو اختیار کیا اور بادشاہ ہو کر اپنی تمام قلمرو میں شیعہ مذہب کی اشاعت شروع کر دی، چونکہ ایرانیوں میں پہلے سے اس مذہب کے قبول کرنے کا مادہ موجود تھا اس لیے اس کو بڑی کامیابی ہوئی۔ جن راسخ العقیدہ مسلمانوں نے شیعیت سے انکار کیا ان پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیئے گئے اور ساتھ ہی یہ اشاعتی کام قلمرو عثمانی میں بھی شروع کر دیا گیا سلطان بایزید نے تو کوئی انتظام نہ کیا، لیکن سلطان سلیم نے اس طرف فوری توجہ مبذول کر کے اس فتنہ کا استیصال کر دیا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ سلطان سلیم عثمانی نے مذکورہ خط کے ساتھ اپنا ایک ایلچی بھی بھیجا اور اس کو سمجھا دیا کہ اگر شاہ اسماعیل راہ راست پر آ جائے اور ہماری باتوں کو مان لے تو اس سے کہا جائے کہ وہ شہزادہ مراد کو جو اس کے پاس پناہ گزیں ہے ہمارے پاس بھیج دے، اسماعیل صفوی نے اس خط کو پڑھ کر سلطان سلیم کے ایلچی کو فوراً شہزادہ مراد کے سپرد کر دیا اور اس نے اسمٰعیل صفوی کے اشارہ کے موافق اس ایلچی کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، یہ حرکت اسماعیل صفوی کی بہت ظالمانہ اور مراسم شاہانہ کے خلاف تھی پھر اسماعیل نے سلطان سلیم کے خط کا جواب لکھ کر اس کے پاس روانہ کیا اس خط میں اسماعیل صفوی نے لکھا کہ’’میں نہیں سمجھ سکا کہ آپ اس قدر ناخوش اور برافروختہ کیوں ہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افیم کے نشہ میں یہ خط لکھا گیا ہے آپ کو اگر لڑنا ہی منظور ہے تو میں بھی ہر طرح تیار ہوں جو کچھ اللہ کی مرضی ہے اس کا بہت جلد ظہور ہو جائے گا اور جب میدان میں مقابلہ ہو گا تب آپ کو قدر عافیت معلوم ہو گی۔‘‘ اس خط کے ساتھ اسماعیل صفوی نے افیون کا ایک ڈبہ بطور تحفہ سلطان سلیم کے پاس بھیجا، جس سے مقصود تھا کہ تم افیون کھانے کے عادی ہو اور اسی کے نشہ میں ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو، لہٰذا افیون کے
Flag Counter