جفاکش اور سلیم الفطرت تھا اس کی بہادری و جفاکشی کے سبب تمام فوج اور فوجی سردار سلیم کو سب پر ترجیح دیتے تھے۔ اسمٰعیل صفوی شاہ ایران نے ایران پر قابض و تسلط ہو کر شیعوں کے گروہ ایشیائے کوچک یعنی عثمانی سلطنت میں پھیلا دیئے تھے کہ وہ لوگوں کو شیعت کی ترغیب دے کر شاہ ایران کا ہمدرد و معاون بنائیں ۔ اس تدبیر کا اثر خاطر خواہ ظہور پذیر ہوا اور ایشیائے کوچک میں واقعہ پسند لوگ شاہ ایران کی شہ پا کر قزاقی وغارت گری پر مستعد ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اس بدامنی وغارت گری کے فرو کرنے کے لیے قرقود احمد نے جو ایشیائے کوچک کے غالب حصوں پر حکمران تھے فوجیں استعمال کیں اور غارت گر گروہوں سے بار بار لڑائیاں ہوئیں ، رفتہ رفتہ ان قزاقوں اور باغیوں نے سلطان عثمانی کی غفلت اور شہزادوں کی سستی و غلط روی سے فائدہ اٹھایا اور ان باغیوں کی ٹولیاں شاہ قلی نام ایک شخص کی قیادت میں مجتمع و منتظم ہو کر ایک زبردست فوج کی شکل میں تبدیل ہو گئیں ۔ شاہ قلی ایران کے بادشاہ اسماعیل صفوی کا مریدو ہوا خواہ تھا اس نے سلطنت عثمانیہ کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی کوشش میں کوئی کوتاہی نہیں کی، بالآخر جب قسطنطنیہ میں ایشیائے کوچک کی بدامنی کے حالات مشہور ہوئے تو سلطان بایزید ثانی اس امر پر مجبور ہوا کہ اپنے وزیراعظم کو فوج دے کر مقابلہ پر بھیجے، چنانچہ وزیراعظم نے پہنچ کر مقام سریمشک پر شاہ قلی (جس کو ترک شیطان قلی کہتے تھے) کا مقابلہ کیا، سخت خون ریز جنگ ہوئی اور لڑائی میں سلطانی وزیراعظم اور شاہ قلی دونوں مارے گئے، یہ واقعہ ۹۱۷ھ میں وقوع پذیر ہوا اس بغاوت اور بدامنی کا اثر اسی علاقے میں زیادہ تھا جو قرقود اور احمد کے زیر حکومت تھا، سلیم جس صوبے کا حاکم تھا اس صوبہ یعنی طرابزون کے علاقے میں باغیوں کو بدامنی پھیلانے کا کوئی موقع نہیں ملا جو دلیل اس بات کی تھی کہ سلیم بہت مستعد اور مآل اندیش تھا، سلیم نے اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے زائد فوج بھرتی کر لی تھی اور جب باغیوں کی طرف سے اس کو اطمینان حاصل ہوا تو اس نے اس فوج کو لے کر سرکیشیا کے علاقے پر حملہ کیا اور فتوحات حاصل کیں ۔ یہ خبر سن کر سلطان بایزید ثانی نے قسطنطنیہ سے امتناعی حکم جاری کیا کہ تم غیر علاقے پر حملہ آور ہو کر اپنے دائرہ حکومت کو وسعت نہ دو، سلیم نے لکھا کہ اگر مجھ کو اس طرف فتوحات حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے تو یہاں سے تبدیل کر کے کسی یورپی صوبے کی حکومت پر نامزد فرما دیجئے، تاکہ اس طرف عیسائیوں پر جہاد کرنے کا موقع ملے میں خاموش بیٹھنا اور میدان جنگ سے جدا رہنا پسند نہیں کرنا، یہی وہ زمانہ تھا کہ سلطان بایزید ثانی احمد کو اپنی جانشینی اور قائم مقامی پر نامزد کرنے اور ولی عہد بنانے کا ارادہ کر چکا تھا، سلطان کے اس ارادے سے مطلع ہو کر جاں نثاری فوج اور دوسرے فوجی افسروں نے مخالفت کا اظہار کیا ان میں سے بعض تو قرقود کو اس لیے ترجیح دیتے تھے کہ وہ بڑا بیٹا ہے اور
|