سلطان بایزید ثانی کے دربار میں ایلچی روانہ کیا اور پیغام بھیجا، کہ چالیس ہزار ڈاکٹ سالانہ جو پہلے سے مقرر ہے وہ آپ بدستور بھیجتے رہیں اور تین لاکھ ڈاکٹ یک مشت اب بھیج دیں تو میں ہمیشہ کے لیے آپ کو جمشید کے خطرے سے نجات دے سکتا ہوں یعنی اس کو ہلاک کر سکتا ہوں ، پوپ اسکندر کے اس سفیر کا نام جارج تھا، جارج نے دربار قسطنطنیہ میں بڑے سلیقہ کے ساتھ گفتگو کی اور اپنی قابلیت کا اس خوبی کے ساتھ اظہار کیا کہ سلطان بایزید نے پوپ کو اس سفیر کی سفارش لکھی کہ یہ ایسا لائق ہے کہ اس کو اپنا نائب بنائیں ، یہ سفیر ابھی قسطنطنیہ ہی میں مقیم تھا کہ ۹۰۱ھ میں فرانس کے چارلس ہشتم نے اٹلی پر حملہ کیا اور اس حملہ آوری کا سبب بھی بجز اس کے اور کچھ نہ تھا کہ شہزادہ جمشید کو اب جدید پوپ اسکندر کے قبضے میں نہ رہنے دیا جائے اور اس گوہر گراں مایہ کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے، چارلس ہشتم کے حملہ آور ہونے پر پوپ اسکندر روما سے بھاگ کر سینٹ اینجلو کے قلعہ میں پناہ لی اور بھاگتے ہوئے شہزادہ جمشید کو بھی جسے وہ خزانہ سے زیادہ قیمتی سمجھتا تھا اپنے ساتھ لیتا گیا۔ گیارہ روز کے بعد پوپ اور شاہ فرانس کے درمیان شرائط صلح نامہ طے کرنے کے لیے ایک مجلس منعقد ہوئی، سب سے پہلی شرط جو چارلس نے پیش کی وہ یہ تھی کہ جمشید میرے قبضے میں رہے گا آخر ایک مکان میں پوپ، چارلس، جمشید صرف تین شخص جمع ہوئے اور پوپ نے جمشید کو مخاطب کر کے دریافت کیا کہ کیوں شہزادے تم یہاں رہنا چاہتے ہو یا بادشاہ فرانس کے پاس جمشید نے کہا کہ میں شہزادہ نہیں رہا بلکہ ایک قیدی ہوں مجھ کو جہاں چاہے رکھو میں کچھ نہیں کہتا بہر حال چارلس ہشتم شاہ فرانس جمشید کو اپنے ساتھ نیلپز میں لے آیا اور وہاں اس کو رکھ کر ایک سردار مناسب جمعیت کے ساتھ اس کو نگران مقرر کیا گیا اب پوپ اسکندر کی تمام امیدیں سلطان بایزید ثانی سے روپیہ وصول کرنے کی خاک میں مل گئیں ، حالاں کہ سلطان بایزید ثانی تین لاکھ ڈاکٹ ادا کرنے پر آمادہ ہو چکا تھا اور پوپ کے سفیر سے معاملہ طے کر لیا تھا، پوپ کو چوں کہ روپے کا لالچ تھا اس لیے اس نے سلطان بایزید ثانی کو لکھا کہ اگرچہ جمشید یہاں سے نیلپز چلا گیا ہے مگر میں ضرور اس کا کام تمام کرا دوں گا اور آپ سے روپیہ پانے کا مستحق ہوں گا جیسا کہ طے ہو چکا ہے۔ اس کے بعد پوپ اسکندر نے ایک یونانی حجام کو اس کام کے لیے انتخاب کیا، یہ یونانی حجام اول مسلمان ہو چکا تھا اور اس کا نام مصطفی رکھا گیا تھا اس کے بعد وہ مرتد ہو گیا اور اٹلی میں آکر اپنے پیشہ حجامی کی بدولت پوپ تک پہنچ گیا۔ پوپ نے اس مصطفی حجام کو نیلپز کی جانب روانہ کیا اور زہر کی ایک پڑیا دی کہ کسی طرح یہ پڑیا جمشید کو کھلا دی جائے۔ اس زہر کا اثر یہ تھا کہ آدمی فوراً نہیں مرتا تھا، بلکہ چند روز کے بعد بیمار ہو کر مرتا تھا اور کوئی دوا کارگر نہ ہو سکتی تھی، مصطفی نیلپز میں پہنچا اور رفتہ رفتہ رسوخ پیدا کر کے شہزادہ جمشید تک پہنچنے لگا، ایک
|