جمشید نے عیسائی سرداروں کی بد عہدی اور غیر شریفانہ برتاؤ کی شکایت اور اپنے مصائب کی داستان سنائی اور اپنی ماں اور بیوی کی جدائی کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس داستان غم کو سن کر پوپ کے دل پر بڑا اثر ہوا اور وہ بھی چشم پر آب ہو گیا مگر کچھ سوچ کر اس نے کہا کہ تمہارا مصر جانا تمہارے لیے مفید نہ ہو گا اور تم اپنے باپ کا تخت حاصل نہ کر سکو گے تم کو شاہ ہنگری نے بھی بلایا ہے تم اگر ہنگری کی طرف چلے جاؤ گے تو تمہارا مقصد بآسانی پورا ہو سکے گا اور سب سے بہتر تو تمہارے لیے یہ بات ہے کہ تم دین اسلام کو چھوڑ کر دین عیسوی قبول کر لو تو پھر تمام یورپ تمہارے ساتھ ہو گا اور نہایت آسانی سے تم قسطنطنیہ کے تخت پر جلوس کر کے سلطنت عثمانیہ کے شہنشاہ بن جاؤ گے، پوپ اسی قدر کہنے پایا تھا کہ جمشید نے فوراً اس کو روک کر کہا کہ ایک سلطنت عثمانیہ کیا اگر ساری دنیا کی حکومت و شہنشاہی بھی مجھ کو ملنے والی ہو تو میں اس کو ٹھوکر مار دوں گا، لیکن دین اسلام کے ترک کرنے کا خیال تک بھی دل میں نہ لاؤں گا پوپ نے یہ سنتے ہی اپنے کلام کا پیرایہ بدل دیا اور معمولی دل جوئی کی باتیں کر کے جمشید کو رخصت کر دیا اور وہ جس طرح فرانس میں زیر حراست رہتا تھا اسی طرح روما میں بطور قیدی رہنے لگا، جمشید کے روما میں آ جانے کا حال سن کر سلطان مصر نے اپنا ایلچی روما میں بھیجا اس کو یقین تھا کہ روما سے جمشید اب مصر پہنچایا جائے گا اس لیے یہ ایلچی استقبال کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ادھر سلطان بایزید ثانی نے جمشید کے اٹلی آنے کی خبر سن کر اپنا سفیر تحف و ہدایا کے ساتھ پوپ کی خدمت میں روانہ کیا کہ پوپ سے معاملہ طے کرے کیونکہ پوپ کی نسبت خیال تھا کہ وہ اپنے اختیار سے جمشید کو چاہے جہاں بھیج سکتا ہے اور روڈس والوں کے منشاء کو پورا کرنا پوپ کے لیے ضروری نہیں ہے، شاہ مصر کے سفیر نے روما میں داخل ہو کر اول جمشید کو تلاش کیا اور جب اس کی خدمت میں پہنچا تو اسی طرح آداب بجا لایا جیسے کہ سلطان قسطنطنیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر آداب بجا لاتا، اسی سفیر نے جمشید کو یہ حال سنایا کہ آپ کی والدہ سے کس قدر روپیہ سفر خرچ کے لیے ڈی آبسن نے منگایا ہے یہ سن کر جمشید پوپ کی خدمت میں مع سفیر پہنچا اور اس دھوکا بازی کا استغاثہ دائر کیا پوپ نے بہت ہی تھوڑے سے روپے ڈی آبسن کے وکیل سے جمشید کو دلوا کر اس قصے کو ختم کر دیا، مصر کا سفیر ناکام مصر کو واپس چلا گیا بایزید کے سفیر نے پوپ سے مل کر قریباً اسی قدر رقم پر جو ڈی آبسن کو بایزید دیا کرتا تھا معاملہ طے کر لیا اور اس طرف سے اطمینان حاصل کر کے قسطنطنیہ کو واپس چلا گیا اور پوپ نے جمشید کی نگرانی کا معقول انتظام کر دیا اور وہ بدستور قیدیوں کی طرح رہنے لگا اس کے تین سال بعد پوپ جس کا نام شنیوس تھا فوت ہو گیا اور اس کی جگہ اسکندر نامی پوپ مقرر ہوا یہ جدید پوپ پہلے پوپ سے شرارت میں بدرجہا فائق تھا اس نے تخت نشین ہوتے ہی
|