فرانس نے اپنا قبضہ کر لیا کیونکہ وہ ایک نہایت قیمتی مال تھا اور ہر شخص اس پر قبضہ جمانا چاہتا تھا یہ مکان کئی منزل کا تھا، نیچے اور اوپر کی منزل میں تو محافظ اور چوکیدار رہتے تھے، بیچ کی منزل میں شہزادے کو رکھا جاتا تھا، اس عرصہ میں شاہ فرانس، پوپ روما اور دوسرے عیسائی سلاطین نے ڈی آبسن سے خط و کتابت کر کے شہزادہ جمشید کو اپنے اپنے قبضہ میں لینے کی درخواست کی، شہزادہ گویا ایسا مال تھا جو نیلام کے میدان میں رکھا ہو اور ہر شخص اس پر بولی بول رہا ہو ڈی آبسن چونکہ شہزادہ کے ذریعہ خوب نفع اٹھا رہا تھا اور وہ اس کو اپنے قبضہ میں رکھنے کی قیمت پہچانتا تھا لہٰذا اس نے نہ تو کسی کو صاف جواب دیا نہ اس کے دینے پر رضا مند ہوا بلکہ خط و کتابت کے طول دینے اور شرائط کے طے کرنے میں وقت کو ٹالتا رہا ۸۹۵ھ تک شہزادہ جمشید ملک فرانس میں رہا اور روڈس والے برابر سلطان بایزید ثانی سے روپیہ وصول کرتے رہے، جب ڈی آبسن کو یقین ہو گیا کہ عیسائی سلاطین بالخصوص فرانس کا بادشاہ جمشید پر قبضہ کر لے گا کیونکہ وہ اس کے ملک میں فروکش ہے تو اس نے جمشید کو بلا لینے کی تجویز کی اور ادھر جمشید کی ماں کو لکھا کہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سفر خرچ کے لیے بھیج دو تو میں تمہارے بیٹے کو فرانس سے بلا کر تمہارے بیٹے کو پاس مصر میں پہنچا دوں ، اس بیچاری نے فوراً یہ روپیہ بھجوا دیا اور ڈی آبسن نے اپنے آدمیوں کو لکھا کہ جمشید کو ملک فرانس سے اب اٹلی میں لے آؤ یہ حال جب فرانس کے باشادہ چارلس ہشتم کو معلوم ہوا تو اس نے مخالفت کی اور کہا کہ میں جمشید کو ہرگز اپنی عمل داری سے باہر نہ جانے دوں گا آخر بڑی ردوکد کے بعد چارلس ہشتم نے اس شرط پر جمشید کو اٹلی جانے کی اجازت دی کہ پوپ دس ہزار روپیہ بطور ضمانت جمع کرے کہ اگر دربار فرانس کی اجازت کے بغیر جمشید کو اٹلی سے باہر جانے دیا تو یہ دس ہزار روپیہ ضبط ہو جائیں گے، ادھر پوپ نے ایک ضمانت روڈس کے حاکموں کو دی جس کا منشاء یہ تھا کہ اگر وہ فوائد جو روڈس کی حکومت کو جمشید کے ذریعے پہنچ رہے ہیں جمشید کے اٹلی آنے سے رک گئے تو پوپ ان نقصانات کی تلافی کرے گا۔
غرض ۸۹۵ھ میں شہزداہ جمشید شہر روما میں داخل ہوا اور یہاں اس کا شاندار استقبال کیا گیا پوپ کے شاہی محل میں ٹھہرایا گیا، فرانسیسی سفیر شہزادے کے ہمراہ تھا، جب فرانسیسی سفیر اور جمشید پوپ سے ملنے گئے، تو وہاں پوپ کے نائبوں نے جو دربار میں موجود تھے، شہزادہ کو پوپ کے سامنے اسی طرح جھکنے کے لیے بار بار کہا جس طرح فرانسیسی سفیر اور دوسرے عیسائی سردار پوپ کے سامنے جھکتے تھے، لیکن سلطان فاتح کے بیٹے نے یہ ذلت کسی طرح گوارنہ کی اور وہ نہایت بے پروائی اور فاتحانہ انداز سے پوپ کے پاس جا بیٹھا اور نہایت بے پروائی اور شاہانہ جرائت کے ساتھ پوپ سے گفتگو کی اور اسی گفتگو میں کہا کہ میں آپ سے کچھ تخلیہ میں بھی باتیں کرنا چاہتا ہوں پوپ نے اس بات کو منظور کیا اور جب تخلیہ ہو گیا تو
|