Maktaba Wahhabi

841 - 868
کہ وہ مہان نہیں بلکہ ایک قیدی ہے۔ ڈابسن نے سب سے پہلے جمشید سے ایک اقرار نامہ اس مضمون کا لکھوایا کہ اگر میں سلطنت عثمانیہ کا سلطان ہو گیا تو فرقہ ٹائٹس یعنی روڈس کے حاکموں کو ہر قسم کی مراعات عطا کروں گا اس کے بعد اس نے سلطان بایزید کو لکھا کہ جمشید ہمارے قبضہ میں موجود ہے اگر آپ ہم سے صلح رکھنا چاہتے ہیں تو ہم کو اپنے تمام بندرگاہوں میں آنے جانے اور تجارت کرنے کی آزادی دیجئے ہر قسم کے محصول ہم کو معاف کیے جائیں اور آپ کا کوئی اہل کار ہم سے کسی جگہ کسی قسم کا محصول طلب نہ کرے نیز ۴۵ ہزار عثمانی سکے سالانہ ہم کو دیئے جائیں تاکہ ہم جمشید کو اپنی حفاظت اور قید میں رکھیں اور اگر آپ نے ہماری ان شرائط کو منظور نہ کیا تو ہم اس شہزادے کو آزاد چھوڑ دیں گے تاکہ وہ آپ سے تخت سلطنت چھین لینے کی کوشش کر سکے۔ سلطان بایزید ثانی نے بلا تامل ڈی آبسن کے تمام مطالبات کو منظور کر لیا اور ۴۵ ہزار ڈاکٹ یعنی تین لاکھ روپے سے بھی زیادہ سالانہ رقم روڈس والوں کے پاس بھجواتا رہا ادھر ڈی آبسن پریڈیڈنٹ روڈس نے جمشید کی دکھیا غریب الوطن ماں کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ ہمارے پاس بھیجتی رہو گی تو ہم تمہارے بیٹے جمشید کو سلطان بایزید ثانی کے سپرد نہ کریں گے اور اس کو بہ حفاظت آرام سے اپنے پاس رکھیں گے، ورنہ سلطان بایزید ثانی اس سے بھی زیادہ روپیہ ہم کو دینا چاہتا ہے ہم مجبوراً اس کے سپرد کر دیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ جمشید کو قتل کر کے اطمینان حاصل کرے گا، اس پیغام کو سنتے ہی جمشید کی ماں نے جس طرح ممکن ہو سکا ڈیڑھ لاکھ روپیہ ڈی آبسن کے پاس بھیج دیا اور لکھا کہ میں ہمیشہ یہ رقم بھیجتی رہوں گی، غرض کہ روڈس والوں نے جمشید کو جلب منفعت کا بہترین ذریعہ بنایا اور اس کے ذریعہ سے فائدہ اٹھانے میں جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے سے مطلق پرہیز نہیں کیا اس طرح جلب منفعت کی تدابیر کام میں لا کر روڈس والوں نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو سلطان بایزید ثانی یا سلطان مصر جمشید کے حاصل کرنے کے لیے ہمارے ملک پر حملہ کر دیں اور یہ سونے کی چڑیا ہاتھ سے جاتی رہے، لہٰذا انہوں نے جمشید کو روڈس میں رکھنا مناسب نہ سمجھا اور اس کو سلطنت فرانس کی حدود میں شہر نائس کی طرف روانہ کر دیا اور ایک جمعیت اس کی نگرانی اور دیکھ بھال پر مامور کر دی۔ نائس سے پھر دوسرے مختلف شہروں میں اس کو تبدیل کرتے رہے اور اس عرصہ میں شہزادے کے ہمراہیوں کو یکے بعد دیگرے جدا کرتے رہے، یہاں تک کہ جمشید تنہا رہ گیا، فرانس کے ایک شہر میں جب جمشید کو ٹھہرایا گیا تو اتفاقاً حاکم شہر کی لڑکی فلپائن ہلنیا اس پر عاشق ہو گئی، چند روز کے بعد اس شہر سے بھی اس کو جدا کر کے اس کو ایک خاص مکان میں جو اسی کے لیے فرانس کے بادشاہ نے تعمیر کرایا تھا لے جا کر رکھا اب گویا شہزادہ پر بادشاہ
Flag Counter